کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 117
رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ﴾ (البقرۃ: ۳۷) ان کلمات کی قراء ت میں نقل اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے قراء کرام پر اعتماد کیا گیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل قراءات قرآنیہ میں مسلمانوں کے اختلاف کا بہترین علاج تھا، چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو قراءات متواترہ پر جمع فرما دیا اور قراءات غیر متواترہ سے محفوظ فرمالیا۔ ایک عرصہ تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا، حتی کہ نقاط و حرکات کا نہ ہونا، تلاوت قرآن مجید میں قراءات غیر متواترہ کے شامل ہونے کا سبب بن گیا۔ اس کی بنیادی وجہ کثرتِ مصاحف اور ان کا پھیلاؤ تھا، خصوصاً عراق میں جہاں بکثرت عجمی رہتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تلمیذ رشید امام ابو الأسود الدؤلی رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی حرکات لگائیں، پھر عبدالملک بن مروان کے زمانے میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کے حکم سے اس کے نقطے لگائے گئے۔ نقطے لگانے کا کام دو مشہور نحاۃ و قراء کرام امام نصر بن عاصم رحمہ اللہ اور امام یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ نے انجام دیا۔ أبو احمد عسکری کی کتاب ((شرح ما یقع فیہ التصحیف والتحریف)) میں مرقوم ہے: ’’مصاحف پر نقطے لگانے کا سبب یہ ہے کہ لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مصاحف کو عبدالملک بن مروان کے زمانہ تک چالیس سال سے زیادہ تک پڑھتے ہے، پھر غلطی عام ہوگئی اور لوگوں میں پھیل گئی، خصوصاً عراق میں، چنانچہ عراق کے گورنر حجاج نے اہل علم سے مشتبہ حروف پر علامات لگانے کا مطالبہ کیا۔‘‘ [1] ان اہل علم کا کام فقط نقاط و حرکات کی وضع و تدوین تھا، انہوں نے صورت کلمہ (یعنی رسم) سے تعرض نہ کیا اور اسے اس کی رسم اور روایت پر باقی رہنے دیا۔ چنانچہ صورت کلمہ کی معرفت کے لیے روایت اور رسم قرآن کی کتب کی طرف رجوع کیا جانے لگا۔ انہوں نے احتیاطاً رسم کلمہ کو نہیں چھیڑا، تاکہ قراءات قرآنیہ میں تغییر کا باب نہ کھل جائے اور غیر قراءات متواترہ اس میں شامل نہ ہو جائیں۔
[1] الحیاۃ العلمیۃ فی الشام: ۳۵ نقلاً عن العسکری: ۱۳.