کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 116
۱۔ اگر کسی کلمہ کی صورت ایک سے زائد قراءات کا احتمال نہیں رکھتی تھی، اور دوسری قراء ت کسی دوسری صورت سے ثابت ہوتی تھی، تو انہوں نے اس کی کتابت کو الگ الگ مصاحف میں لکھ دیا۔ ایک مصحف میں ایک قراء ت کے مطابق اور دوسرے مصحف میں دوسری قراء ت کے مطابق۔
جیسے لفظ ﴿قَالَ مُوْسٰی﴾ (القصص: ۳۷) مکی مصحف میں واؤ کے بغیر لکھا ہوا ہے، جبکہ دیگر مصاحف میں ﴿وَقَالَ مُوْسٰی﴾ واؤ کے ساتھ مکتوب ہے۔ اسی طرح لفظ ﴿یٰعِبَادِ﴾ (الزخرف: ۶۸) بعض مصاحف میں بدون یاء لکھا ہوا ہے، جبکہ بعض میں ﴿یَاعِبَادِی﴾ یاء کے ساتھ مرسوم ہے۔
امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مصاحف میں مکتوب حروف زائدہ کے بارے میں سوال کرے تو میں کہوں گا:
’’جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو مصاحف میں جمع فرمایا اور احتیاطاً اس کے رسم میں لغت قریش کو ترجیح دی، تو انہوں نے محسوس کیا کہ بعض کلمات کو دو دو بار لکھنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے، جبکہ ان کلمات کو دو دو بار لکھنے سے التباس کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان کلمات کو تمام مصاحف میں تقسیم کر دیا، بعض میں حذف کر دیا اور بعض میں ثابت کر دیا۔ تاکہ امت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے سنا ہوا قرآن مجید محفوظ کرلے، یہ ہے مختلف شہروں کے مصاحف کے رسم میں اختلاف کا سبب۔‘‘ [1]
۲۔ اگر کسی کلمہ کی صورت نقاط و حرکات نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قراءات کا احتمال رکھتی تھی، تو اس کو انہوں نے تمام مصاحف میں ایک ہی صورت کے ساتھ لکھ دیا جیسے ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الحجرات: ۶) اور ﴿فَتَثَبَّتُوْا﴾ اسی طرح ﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ
[1] المقنع: ۱۱۴، ۱۱۵.