کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 113
مگر یہ دونوں معیارات ابتداء ہی میں اپنی موت آپ مر گئے، کیونکہ پہلے معیار میں مطابقت رسم اور دوسرے معیار میں صحت سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ ۱۔ روایت قراء ت: قراءات متواترہ کی روایت میں صحت سند کی شرط پر تمام قرائے کرام کا اتفاق ہے، جیسا کہ ہم اقسام قراءات میں بیان کر چکے ہیں، جبکہ صحت سند کے مرتبہ میں ان کا اختلاف پایا جاتا ہے، جو کہ درج ذیل ہے: ۱۔ وہ روایت مشہور ہو جو علم کا فائدہ دے، قراء اسے ’’مستفیض‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ متقدمین محققین کی رائے ہے۔ ۲۔ وہ متواتر ہو، یہ جمہور کی رائے ہے۔ ۳۔ وہ متواتر یا مستفیض ہو اور یہ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ ۴۔ وہ مطلقاً علم کا فائدہ دے۔ یعنی وہ روایت ایسی سند سے آئے جو قطعیت کا فائدہ دے، برابر ہے کہ وہ متواتر ہو، مستفیض ہو یا ایسی آحاد ہو، جس کے ساتھ قطعیت کا فائدہ دینے والا کوئی قرینہ پایا جاتا ہو۔ اس کو امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کی کتاب ’’السبعۃ‘‘ سے سمجھا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے بعض روایات ایسی جمع فرمائی ہیں، جن کی روایت میں ایک ایک راوی منفرد ہے جیسے بکار بن عبداللہ بن کثیر نے اپنے باپ سے ﴿لَاِِحْدَی﴾ (المدثر: ۳۵) بلا الف، منفرد بیان کی ہے۔ یہاں سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ تمام اہل علم نے قراءات متواترہ کی سند کی صحت میں علم مفید کی شرط لگائی ہے، جو یہ فائدہ دے کہ یہ روایت فعلاً یا تقریراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور قراءات متواترہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ ۲۔ مطابقت رسم: قراءات میں صحت سند کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اب ہم مطابقت رسم کی وضاحت کریں گے، کیونکہ یہ قراءات متواترہ کے ارکان میں بنیادی رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ رسم سے مراد خط کی وہ شکل ہے، جس پر عہد عثمانی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے مصاحف لکھے گئے۔ قراءات متواترہ میں رسم مصاحف کی مطابقت کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے، کہ جب مصاحف لکھے جانے لگے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ مصاحف کو ان تمام حروف پر لکھا جائے جو عرضۂ اخیرہ میں ثابت تھے۔ گویا رسم مصاحف کی شرط لگانے کا مقصد قراءات متواترہ میں قراءات شاذہ کے شامل ہونے کو روکنا تھا۔ امام باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: