کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 107
پانچویں فصل: قراءات میں اختیار مصادر قراءات، وجوہ اختلاف اور اسباب اختلاف بیان کرنے کے بعد اب ہم اختیارات کی تعریف قلمبند کریں گے، جو ان مصادر و وجوہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی تاریخ قراءات میں بیان کر چکے ہیں کہ پہلی صدی ہجری کا نصف آخر اور دوسری صدی ہجری کا نصف اوّل، قراءات میں اختیار کے آغاز کا مرحلہ تھا۔ جس میں قرائے کرام میں سے ہر قاری نے اپنے مقررہ منہج و معیار کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مختلف حروف میں سے چند حروف کو اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور اس انتخاب میں انہوں نے صحت سند، موافقت عربیت، مطابقت رسم اور دیگر عوامل پر اعتماد کیا۔ اس انتخاب کے بعد انہوں نے اس کی پابندی کرنا شروع کر دی، جس کے سبب وہ ان کی طرف منسوب کیا جانے لگا اور ان کا اختیار و حرف کہلانے لگا۔ مذکورہ کلام کی روشنی میں ہم اختیار کی تعریف کچھ یوں کرسکتے ہیں: ((بِأَنَّہُ الْحَرْفُ الَّذِیْ یَخْتَارُہُ الْقَارِیُٔ مِنْ بَیْنِ مَرْوِیَاتِہٖ مُجْتَہِدًا فِیْ اخْتِیَارِہٖ)) ’’اختیار سے مراد وہ حرف ہے، جسے قاری اپنی مرویات میں سے اجتہاد کرتے ہوئے منتخب کرتا ہے۔‘‘ مثلاً امام نافع رحمہ اللہ نے ستر (۷۰) تابعین اساتذہ کرام سے پڑھا تھا، اور انہوں نے اس میں سے صرف ان حروف کو اختیار کیا، جس پر ان کے دو دو اساتذہ متفق تھے، ان کے علاوہ دیگر حروف کو انہوں نے ترک کر دیا، اور باقی تمام قراء نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔