کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 103
قرآن کا اعتماد قلوب و صدور کے حفظ پر تھا، نہ کہ مصاحف اور کتب کے حفظ پر۔ [1] ۲۔ قراء ت کی تحریک، نقاط و حرکات کے وجود سے پہلے ہی پیدا ہو چکی تھی، جیسا کہ ہم پہلے (قراءات قرآنیہ کا آغاز و ارتقاء) کی فصل میں بیان کر چکے ہیں۔ ۳۔ قراءات کا اعتماد نقل اور روایت پر تھا جیسا کہ ہم پہلے (قراءات کے مصادر) کی فصل میں بیان کر چکے ہیں۔ یہاں ہم ایک اور گواہی پیش کرتے ہیں کہ امام ابو شامہ رحمہ اللہ ، امام شاطبی رحمہ اللہ کے اس شعر ((و إیلاف کل، وہو فی الخط ساقط)) کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’تمام قراء سبعہ نے دوسرے حرف ﴿اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ ﴾ (قریش: ۲) میں یاء کو ثابت کیا ہے، حالانکہ یہ یاء تمام مصاحف کے رسم میں محذوف ہے، اور اس میں لام کے بعد والا الف بھی محذوف ہے۔ چنانچہ اس کی صورت ہوگی ﴿لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ، اٖلٰفِہِمْ﴾ (قریش: ۱، ۲) تمام قراء نے دوسرے حرف کو یاء کے ساتھ پڑھا ہے، حالانکہ وہ یاء کے بغیر مرسوم ہے، اور پہلے کو اختلاف سے پڑھا ہے، حالانکہ وہ یاء کے ساتھ مکتوب ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قراء کرام نقل صحیح کی اتباع کرتے تھے، فقط رسم یا عربیت کی موافقت کی بنیاد پر نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ [2] امام صفاقسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’غیث النفع‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’شیخ عارف باللہ سیدی محمد بن الحاج ’’المدخل‘‘ میں فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مصحف سے قراء ت کرے، مگر قراء ت اور رسم مصحف کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی طریقے پر عمل کرتا ہے، تو وہ اجماع امت کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘ [3]
[1] النشر: ۱/۶. [2] إبراز المعانی: ۴۹۹. [3] غیث النفع: ۲۱۸.