کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 100
ہوتی ہے، جو ضحاک رحمہ اللہ نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس قرآن مجید کو قبائل عرب میں سے ہر قبیلے کی لغت میں نازل فرمایا ہے۔‘‘ [1]
معاصرین میں سے ڈاکٹر طہ حسین نے اس قول کو اختیار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’میں قراءات میں ایک دوسرے اختلاف کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، جسے عقل قبول کرتی ہے، نقل کے مناسب ہے اور قبائل عرب کے لہجات کا اختلاف اس ضرورت کا متقاضی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قبیلہ قریش کی مانند قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے، گلے، زبان اور ہونٹوں کو تبدیل کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ آپ ویسے ہی تلاوت کریں گے جیسے آپ گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ لوگ ایسی جگہ امالہ کرتے تھے، جہاں قریش امالہ نہیں کرتے تھے، ایسی جگہ مد اور قصر کرتے تھے، جہاں قریش مد اور قصر نہیں کرتے تھے، ایسی جگہ سکون، ادغام، اخفاء اور نقل کرتے تھے، جہاں قریش یہ نہیں کرتے تھے۔‘‘[2]
معاصرین ہی میں سے علی الجندی، محمد صالح سمک اور محمد ابو الفضل ابراہیم نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔[3] لیکن ان کے نزدیک یہ سبب، قراءات قرآنیہ کے تمام اختلافات کی علت نہیں ہے، بلکہ بعض اختلافات کی علت ہے، جیسا کہ انہوں نے اشارہ کیا ہے۔ اور یہاں ہم نے بھی اس کو اختیار کیا ہے، جیسا کہ پہلے مصادر قراءات کی فصل میں ڈاکٹر طہ حسین سے ہمارا مناقشہ گزر چکا ہے۔
اور اختلاف کی یہ نوعیت … ہمارے خیال کے مطابق… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر کے ضمن میں داخل ہے جیسا کہ ہم نے بعض نصوص میں اشارہ کیا ہے۔
[1] فی الأدب الجاہلی: ۹۵.
[2] فی الأدب الجاہلی: ۹۵.
[3] أطوار الثقافۃ والفکر: ۱/۸۰.