کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 8
زیہر کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے قراءات قرآنیہ کے حقائق و اسرار کو واضح کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ہر قراء ت اپنے اندر ایک معنی رکھتی ہے اور ان کے مابین کوئی تضاذ نہیں،بلکہ ایسا معنوی تنوع ہے کہ جس سے قرآن کی فصاحت و بلاغت نمایاں ہوتی ہے۔صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءات میں اختلاف کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
((إِنْ قُلْتَ:غَفُورًا رَحِیْمًا،أَوْ قُلْتَ:سَمِیْعًا عَلِیمًا،أَوْ عَلِیْمًا سَمِیعًا فَاللّٰهُ کَذَلِکَ،مَا لَمْ تَخْتِمْ آیَۃَ عَذَابٍ بِرَحْمَۃٍ،أَوْ آیَۃَ رَحْمَۃٍ بِعَذَابٍ۔)) [1]
’’تم غَفُوْرًا رَّحِیْمًا کہہ لو،یا سَمِیْعًا عَلِیْمًا کہہ لو،اللہ تعالیٰ اسی طرح ہی ہے،بشرطیکہ تم آیت ِرحمت کا اختتام آیت ِعذاب پر نہ کرو اور آیتِ عذاب کا اختتام آیت ِرحمت پر نہ کرو۔‘‘
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات متعدد اوصاف سے متصف ہونے کے باوجود تناقض و تضاد سے مبرا ہے،اسی طرح قرآن کریم متعدد وجوہِ قراء ت کے باوجود تنافض و تضاد سے پاک ہے۔ اگرچہ یہ قراءات تلفظ میں باہم مختلف ہیں،لیکن مفہوم میں کوئی تضاذ نہیں ہے۔
اوریہی وہ حقیقت ہے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول:’’ إنما ہو کقول أحدکم ہلم و تعال و أقبل‘‘ میں واضح طورپر بیان کر دی گئی ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ گرامئ قدر استاذالشیخ عبد الفتاح القاضی کواس کاوش کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔کتاب شکوک وشبہات کو رفع کرتی اور علمِ قراء ت کی گتھیوں کو سلجھاتی ہے۔ہم پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قارئین اس کتاب کو انتہائی مفید پائیں گے۔
از… عبد العزیز بن عبدالفتاح القاری
ڈین کلیہ القرآن الکریم وعلوم اسلامیہ،جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورۃ
22 ربیع الآخر1402ھ
[1] مسند احمد 35/84،رقم: 21149.