کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 7
عربی ترجمہ کے بعد یہ کتاب عرب دنیا میں پھیل چکی تھی،لہٰذا ضروری تھا کہ فورا ًاس کا جواب لکھ کر لوگوں کو اصل حقیقت سے روشناس کروایا جاتا،کیونکہ مسلم معاشروں میں موجود بعض تعلیم یافتہ اور جدت پسند افراد گولڈ زیہر جیسے مغربی مفکرین کے دلدادہ ہیں اور ان کی مغربی سوچ ان کے نظریات اور تصنیفات سے فکر ی غذا فراہم کرتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ گولڈ زیہر نے قراءات ایسے مشکل اور نہایت دشوار گزار موضوع پر طبع آزمائی کی جسارت کی ہے،جسے صرف فنِ قراء ت کے ماہر علماء ہی سمجھتے ہیں۔دار الہجرۃ (مدینہ منورہ)کے یکتائے روز گار عالم امام مالک رحمہ اللہ سے جب ایک شخص نے قراءات کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے باوجود اپنی جلالتِ شان اور تبحر علمی کے اس شخص کو مدینہ منورہ میں فنِ قراء ت کے جلیل القدرعالم امام نافع رحمہ اللہ کے پاس بھیجتے ہوئے فرمایا:
’’کُلُّ عِلْمٍ یُسْأَلُ عَنْہُ أَہْلُہٗ‘‘
’’ہر علم کے متعلق اس کے ماہرین سے ہی سوال پوچھنا چاہیے۔‘‘
ضروری نہیں ہے کہ علوم اسلامیہ کے ہر میدان میں مغربی مفکرین کی ایسی بے معنی تحقیقات کا جواب دیا جائے اور نہ ہی ہر تحریر کسی تبصرے و تردید کی مستحق ہوتی ہے لیکن علمِ قراء ت کی نزاکتوں سے چونکہ صر ف ماہرینِ فن ہی و اقف ہیں،لہٰذامناسب تھا کہ اس کے بارے مستشرقین کے مغالطوں کو بے نقاب کیا جائے۔
اس موضوع پر جتنی بھی کتابیں اب تک لکھی گئیں ہیں،ان میں استاذ گرامی الشیخ العلامہ عبد الفتاح القاضی کی یہ کتاب ایک بہترین کاوش ہے۔مصنف موصوف شعبہ قراءات،کلیہ القرآن الکریم،جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ کے چیئرمین اور تصحیح المصاحف کمیٹی مصر،کے صدر ہیں۔ ان کا شمار فن قراء ت کے محقق علماء میں ہوتا ہے۔قرائے کرام کی ایک بڑی تعدادکو ان سے شرف ِتلمذ حاصل ہے۔علوم القرآن اور قراءات کے موضوع پر ان کی متعدد تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں اور طلباء کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
مصنف موصوف نے ایک ماہر محقق عالم کی طرح واضح اور ٹھوس علمی اسلوب سے گولڈ