کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 64
’’بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ اور سورۃ فصلت میں فرمایا: ﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (فصلت:42) ’’باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ ایک حکیم و حمید ذات کی نازل کردہ کتاب ہے۔‘‘ اگر قراءات قرآنیہ میں رائے اور اختیار کا امکان تسلیم کر لیا جائے تو پھر قرآن میں تحریف اور تصحیف کا امکان بھی ماننا پڑے گا،لیکن یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کے وعدہ اور اس کی صفت﴿لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفِہٖ﴾ کے منافی ہے۔ آٹھویں دلیل: یہ حقیقت ہر قسم کے شک سے مبرا انتہائی قطعی ذرائع سے ثابت ہو چکی ہے کہ قرآن اور قراءات قرآنیہ کے حفظ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا انحصار مصحف پر قطعاً نہیں تھا،بلکہ انہوں نے اس کا ایک ایک حرف براہ راست زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر حاصل کیا اور پھر اسے اپنے دل و دماغ پر نقش کر لیا تھا۔قرآن کریم کے حفظ و ضبط کے سلسلے میں ان کے ولولۂ شوق کا یہ عالم تھا کہ انہیں بارگاہِ ایزدی سے یہ اعزاز عطا ہوا کہ:’’أَنَاجِیلُہُمْ فِی صُدُورِہِم‘‘ یعنی انہوں نے اللہ کی اس کتاب کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ہے اور زبانی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔اس کے برعکس اہل کتاب اپنی کتب کو دیکھ کر پڑھتے ہیں،ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی کتاب کو حفظ اور پھر اسے ہر وقت مستحضر رکھ سکیں۔ نویں دلیل: جو شخص بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات،دین کے ساتھ ان کی محبت اور اپنے پروردگا ر کی کتاب کے ساتھ ان کی گہری عقیدت سے واقف ہے تو وہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ صحابہ