کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 63
﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَا اَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ اِنِّیْ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ (یونس:15) ’’اور جب ہماری صاف صاف باتیں ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے،کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ،یا اس میں کچھ ترمیم کر و۔اے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو،میرے بس میں نہیں ہے کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی ترمیم یا تبدیلی کر لوں۔ میں تو اس وحی کا پابند ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے خوفناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔‘‘ اور سورۃ الحاقہ میں فرمایا: ﴿وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْل لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ﴾ (الحاقۃ:44-46) ’’اگر اس پیغمبر نے خود گھڑ کر ہماری طرف کوئی بات منسوب کی ہوتی تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور ان کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔‘‘ جب خود مہبطِ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآنِ کریم میں کسی قسم کا تغیر و تبدل ممکن نہیں تھا تو پھرکسی صحابی،تابعی یا کسی دوسرے کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی لفظ یا حرف میں ترمیم و تحریف کر سکے ؟ ساتویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود لیا کہ تحریف کا کوئی شائبہ بھی اس میں راہ نہ پاسکے،جیسا کہ کتب ِسابقہ محفوظ نہ رہ سکیں تھیں۔چنانچہ سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:9)