کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 62
ضروری نہیں تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کا بعض حصہ انسانی کلام پر مشتمل ہے۔ اور سارا قرآن وحی آسمانی اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہے۔اگر اس وسوسہ شیطانی کو مان لیا جائے تو پھر بتائیے کہ قرآن کریم کا وہ اعجاز کہاں رہا کہ کائنات کے جن و انس مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہیں بنا سکتے ؟کیا قرآن ِکریم اپنے اس چیلنج سے دستبردار ہو گیا ہے؟اس تاریخی حقیقت کی آخر کیا توجیہ پیش کر و گے کہ عربوں نے اعجاز قرآن کے سامنے اپنی بے بسی کا خود اعتراف کر لیا تھا ؟کیاقرآن کریم کی تلاوت اب درجۂ عبادت و ثواب سے محروم ہو گئی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! قرآن کریم کا عرب و عجم کو چیلنج آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم پر باقاعدہ ایمان لانے کا حکم دیا ہے اور اس کی تلاوت کو کار ِثواب اور عبادت قرار دیا ہے۔ اگربقول گولڈ زیہر قرآن کریم میں انسانی کلام کی آمیزش ہو گئی ہے تو پھر انسانیت کو اس کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج،اس پر ایمان کی فرضیت اور اس کی تلاوت پر ایک حرف کے بدلے دس نیکیوں کا وعدہ چہ معنی دارد؟ان حقائق کی کوئی توجیہ سوائے اس کے ممکن نہیں ہے کہ قرآن کریم الحمد سے لے کر الناس تک پورا کا پورا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور اس میں کلامِ بشری کی آمیزش کا تصور بھی محال ہے۔جب حقیقت یہ ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ قراءات ِقرآنیہ کا باعث رسم مصاحف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا ہرگز نہیں ہے،بلکہ ان کا اصل سرچشمہ وحی الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ نبوت ہے۔ چھٹی دلیل: اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ حقیقت واضح کردی تھی کہ آپ بھی قرآن کریم کے کسی ایک لفظ اور حرف میں تبدیلی کے مجاز نہیں ہیں۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صاف صاف بتا دیا کہ میرے لیے اس کے ایک حرف کو بدلنا بھی محال ہے۔اور واضح کر دیا کہ قرآن کریم میں ادنی ٰتبدیلی بھی میریلئے شدید اخروی سزا کا موجب بن سکتی ہے۔اس حقیقت پر قرآن کریم کی یہ آیت شاہد ِعدل ہے: