کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 60
حقیقت کو مان لینے میں آخر کیا رکاوٹ ہے کہ قراءات قرآنیہ کا تمام تر دارومدار روایات متواترہ،آثار صحیحہ اور وہ قابل اعتماد اور مضبوط اسانید ہیں جو ثقہ اور علم و کردار کے پیکر قراء سے نسل در نسل روایت ہوتی آئی ہیں۔اور رسم و کتابت کو قراءات قرآنیہ کے اس پورے سلسلے میں قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔
گزشتہ پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی بھی قراء ت اس وقت تک قراء ت تسلیم کی جا سکتی نہ اسے قرآن قرار دیا جا سکتا ہے،جب تک کہ وہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اور اس کا مرکز و محور سماع اور نقل در نقل نہ ہو۔اور رسم و کتابت کا اس سلسلہ میں قطعاً کوئی کردار نہیں ہے۔
چنانچہ امام ابو شامہ رحمہ اللہ شاطبیہ کی شرح میں لفظ ’’ولؤلؤا‘‘ (الحج:23) پر بحث کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’سورۃ الحج میں ’’لؤلؤا‘‘ میں الف کے ساتھ رسم ہے،جبکہ سورۃ فاطر میں یہ لفظ الف کے ساتھ نہیں ہے اور قراء ت تو نقل ِروایت کا نام ہے۔جہاں نقل،رسم کے موافق ہو گی تو مزید مضبوط ہو جائے گی اور نقل کی تائید کے بغیر محض رسم کی اتباع میں قراء ت کرنا درست نہیں ہے۔ اگر رسم،نقل کے مطابق ہو جائے تو یہ کیا ہی خوب ہے۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہے۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ کے شاگرد الشیخ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ مقام اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ قراءات قرآنیہ میں نقل وروایت پر انحصار کیا گیا ہے۔اگر قراء نے اس سلسلہ میں رسم الخط کا سہارا لیا ہوتا تو وہ سورۃ الحج میں اس لفظ کو الف کے ساتھ پڑھتے اور سورۃ فاطر میں لفظ ’’لؤلؤ‘‘ کو زیر کے ساتھ پڑھتے۔‘‘
اور امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر قراء سے اختلاف کرنا میرے نزدیک ناپسندیدہ نہ ہوتا تو یہاں رسم الخط