کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 6
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:
((فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُ وا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوا۔))[1]
’’جس حرف پر بھی لوگ اسے پڑھیں گے،بلاشبہ وہ درست ہو گا۔‘‘
سات حروف سے مراد،سات وجوہ ہیں،یعنی سات طرح سے قرآن کریم کو پڑھا جا سکتا ہے۔البتہ یہ واضح رہے کہ پورا قرآن سات وجوہ پر نازل نہیں ہوا،بلکہ بعض حصہ چھ وجوہ پر،کچھ حصہ پانچ یا چاریا تین پر،کچھ دو وجوہ پر اور قرآن کا زیادہ تر حصہ ایک ہی وجہ پر نازل ہواہے،جس میں قراءات کا کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔
اوریہ بھی واضح رہے کہ ان میں سے ہر ہر وجہ قرآن ہے،اور لفظ کی ساخت میں تبدیلی کی وجہ سے معنی میں وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ ان وجوہ میں اختلاف کی نوعیت،تناقض وتضاذ کے بجائے تنوع کی ہے۔اختلافی وجہ مسئلہ کی کسی نئی جہت کو واضح تو کرتی ہے،لیکن تضاد کا شائبہ تک موجود نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کاایک منفرد اعجاز ہے اور جو شخص بھی توجیہِ قراءات کا دقت نظری سے مطالعہ اور ان کے معانی پر غور کرے گا،اس سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہے گی۔اس کی مثالیں آپ کو زیر نظر کتاب میں مل جائیں گی۔لیکن فرنگی مستشرقین اس واضح حقیقت کو کیسے سمجھتے؟ خصوصاً گولڈ زیہر (Ignaz G ld Zihar) جیسامتعصب مستشرق جو وسعتِ مطالعہ کے باوجود دانستہ بددیانتی کا ارتکاب اور حق شناسی کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اور جب اس کی کتاب ’’مذاہب التفسیر الإسلامی‘‘ کا ترجمہ منظر عام پر آیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں قرآن کریم کے بارے میں تعصب اور واضح جھوٹ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ قرآن میں شدید اختلافات ہیں۔ گولڈ زیہر کی اس خطرناک گمراہی کاسبب یقینا ًقراءات سے نافہمی ہے،یا اس نے محض ضد کی بنا پر دانستہ حقائق سے روگردانی کی ہے۔
[1] صحیح مسلم،رقم :821.