کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 57
یہاں ’’وَ وَصّٰی‘‘ کودونوں واؤ کی فتح (زبر) اور صاد کی تشدید کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور باب إفعال سے پہلی واؤ کی فتح (زبر) اور دوسری واؤ ساکن اور ان دونوں کے درمیان ہمزہ مفتوحہ اور صاد متحرک کے ساتھ ’’وَ أَوْصٰی‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔ اور فرمانِ الٰہی ہے:﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوْصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ﴾ (البقرۃ:182)اس میں لفظ ’’مُوْصٍ‘‘ کو باب تفعیل سے واؤ کی زبر اور صاد کی تشدید کے ساتھ’’مُوَصٍّ‘‘ بھی پڑھا گیا ہے اور اسے باب إفعال سے واؤ ساکن اور صاد متحرک کے ساتھ ’’مُوْصٍ‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔مذکورہ آیات میں اگرچہ یہ لفظ دونوں لغات کے ساتھ استعمال ہوا ہے،لیکن لفظ ’’ یُوصِیکُم‘‘ کو تمام قراء نے بالاتفاق ایک ہی لغت اور قراء ت کے ساتھ پڑھا ہے۔اسے بھی دوسری لغت سے پڑھا جا سکتا تھا،لیکن آج تک کسی نے دوسری لغت کو قراء ت قرار نہیں دیا،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی صرف ایک ہی قراء ت بیان ہوئی ہے۔اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قراءات کاتمام تر انحصار نقل و روایت پر ہے،رسم اور رائے کو قراءات میں کوئی دخل نہیں ہے۔ (۶)۔ عربی زبان و ادب کے یکتائے روزگار امام فراء نے اپنی کتاب معانی القرآن میں فرمان الٰہی:﴿إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ﴾ (طہ:69) کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی قاری یہاں لفظ ’’کَیْدُ‘‘ کو دال کی نصب(زبر)کے ساتھ پڑھتا تو ’’إِنَّ‘‘ اور ’’مَا‘‘ کو ایک حرف شمار کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز تھا،لیکن قرائے عشرہ (قراءات متواترہ کے دس معروف قراء) میں سے کسی نے اسے زبر کے ساتھ نہیں پڑھا،بلکہ دس کے بعد (قراءات شاذہ کے)چار معروف قراء میں سے بھی کسی قاری نے اس قراء ت کو جائز قرار نہیں دیا،حالانکہ لغوی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔‘‘ امام موصوف نے فرمان الٰہی:﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوا﴾ (الکہف:6) کے ضمن میں مزید لکھا ہے کہ ’’یہاں تمام قراء نے کسرہ (زیر) کے ساتھ ’’إِنْ‘‘ پڑھا ہے،اگراسے ’’إذ لم یؤمنوا‘‘ یا ’’لأن لم یؤمنوا‘‘ یا ’’من أن لم