کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 56
نقل صریح اور براہ راست سماع ہے۔اور قراءات ِقرآنیہ کے اس پورے سلسلے میں رائے،اجتہاد کی کوئی گنجائش ہے نہ رسمِ مصحف کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کا کوئی دخل اس میں ہے۔
(۳)۔ لفظ ’’الرضاعۃ‘‘ قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے:﴿لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَۃ﴾ (البقرۃ:233) اور﴿وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ﴾ (النساء:23) میں۔ عربی زبا ن کی رو سے اس کو راء کی زبر اور زیر کے ساتھ دونوں طرح پڑھنا جائز ہے،لیکن کسی قاری نے بھی اسے راء کی زیر کے ساتھ نہیں پڑھا،بلکہ تمام قراء نے بالاتفاق اسے راء کی زبر کے ساتھ ہی پڑھا ہے۔
(۴)۔ عربی زبان و ادب کے معروف ادیب امام اصمعی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے امام مازنی رحمہ اللہ سے پوچھاکہ فرمان الٰہی:﴿إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ (القمر:49) کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ تو امام مازنی رحمہ اللہ نے جواب دیا:
’’عربی لغت کی رو سے سیبویہ کے نزدیک اس میں نصب (زبر) کی بجائے رفع (پیش) زیادہ بہترہے۔البتہ امام فراء نے رفع کی بجائے نصب کو ہی جائز قرار دیا ہے،لیکن ہم اسے نصب کے ساتھ اس لیے پڑھتے ہیں کہ قراء ت کی بنیاد سنت ہے۔‘‘
(۵)۔ فرمان ِالٰہی:﴿یُوصِیکُمُ اللّٰہُ فِی أَوْلَادِکُمْ﴾ (النساء:11)میں لفظ ’’ یُوصِیکُم‘‘ کو اگر ’’ وَصّٰی یُوَصِّیِ تَوْصِیَۃً‘‘ سے ماخوذمانا جائے تو لغوی اعتبارسے اسے واؤ کی زبر اور صاد کی تشدید کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے۔لیکن اگر بابِ إفعال:’’أَوْصٰی یُوْصِیْ إِیْصَائً‘‘ سے ماخوذ مانا جائے تو واؤ ساکن اور صاد متحرک کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں لغات کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔مثلاً:فرمان الٰہی ہے:﴿وَوَصّٰی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ﴾ (البقرۃ:132)