کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 54
کے اسلوب کے بالکل مطابق ہے۔قرآن کی یہ آیات ملاحظہ ہوں:﴿وَخَلَقْنَاکُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاسًا وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا وَبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَہَّاجًا وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَائً ثَجَّاجًا لِنُخْرِجَ بِہِ حَبًّا وَنَبَاتًا وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا﴾ سورۃ النمل اور السبا کی مذکورہ آیات میں ذات ِالٰہی کی عظمت کا ترجمان نون ِجمع متکلم مذکورہ دونوں آیات میں ’’ننفخ‘‘ کی قراء ت سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن ان دونوں آیات میں ائمہ قراء میں سے کسی نے بھی نے بھی اس لفظ کو نون کے ساتھ ’’ننفخ‘‘ نہیں پڑھا،کیونکہ ایسی کوئی قراء ت سندا ًثابت نہیں ہے۔ اس سے یہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہو جاتی ہے کہ ثبوتِ قراءات کا تمام تر انحصار نقل و روایت پر ہے،اجتہاد اور رائے کو اس سلسلے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ پندرھویں مثال:لفظ ’’سُخْرِیًّا‘‘ قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے۔ سورۃ المومنوں کی آیت﴿فَاتَّخَذْتُمُوہُمْ سِخْرِیًّا﴾ سورۃ ص ٓکی آیت﴿أَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِیًّا﴾ میں اور سورۃ الزخرف کی آیت﴿لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اول الذکر دو مقامات پر قراء کا اختلاف ہے۔بعض نے اسے سین کی پیش اور بعض نے سین کی زیر کے ساتھ پڑھاہے۔لیکن تیسرے مقام پر تمام قراء نے اسے بالاتفاق سین کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔واضح رہے کہ یہ لفظ عربی لغت میں پیش اور زیر کے ساتھ دونوں طرح استعمال ہوا ہے اور مفہوم کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔یہ درست کہ مصاحف عثمانیہ نقطوں اور حرکات سے خالی رکھے گئے تھے،لیکن اگر قراءات کا باعث رسم مصحف ہوتا تو قراء پہلے دو مقامات کی طرح تیسرے مقام پر بھی اختلاف کرتے۔پہلی دو جگہ اختلاف جبکہ تیسری جگہ اتفاق اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ قراءات قرآنیہ کا باعث رسم مصحف قطعاً نہیں ہے،بلکہ قراءات کی تمام تر بنیاد سماع،نقل اور روایت ہے۔ اس حقیقت کی مزید وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں بکثرت ایسے