کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 52
مطابقت نہیں رکھتی ہے،لہٰذ ا کسی نے بھی اس قراء ت کو نہیں پڑھا اور سب قراء نے بالاتفاق نون کے ساتھ ہی پڑھا ہے۔ اگرچہ لغوی اعتبار سے اس قراء ت میں کوئی حرج نہ تھا،لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی اس کے مطابق نہیں پڑھا۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قراء ۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تھی۔ اسی طرح سورۃ القصص کی آیت﴿قَالَتَا لَا نَسْقِی﴾ میں بھی اس لفظ کو تمام قراء نے بالاتفاق نون کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے،اگرچہ لغوی اعتبار سے پیش بھی درست ہے۔کیونکہ عربی زبان میں ’’سقاہ‘‘ (ثلاثی مجرد) اور ’’أسقاہ‘‘ (ثلاثی مزید فیہ) ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الدھر کی آیت﴿وَسَقَاہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُورًا﴾،سورۃ الجن کی آیت﴿لَأَسْقَیْنَاہُمْ مَائً غَدَقًا﴾ اور سورۃ المرسلات کی آیت:﴿وَأَسْقَیْنَاکُمْ مَائً فُرَاتًا﴾ میں یہ لفظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔اس سے واضح طور یہ ثابت ہوتا ہے کہ قراءات میں اعتماد کی اصل بنیاد سماع اور اتباع (وحی) ہے،اجتہاد و اختراع قطعاً نہیں ہے۔ تیرھویں مثال:لفظ ’’کسفا‘‘ قرآن کریم میں پانچ دفعہ آیا ہے۔پہلی دفعہ سورۃ الاسراء کی آیت﴿أَوْ تُسْقِطَ السَّمَائَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا﴾ میں،اس کے بعد سورۃ الشعراء کی آیت﴿فَأَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِنَ السَّمَائِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِینَ﴾ میں اور تیسری دفعہ سورۃ الروم کی آیت﴿وَیَجْعَلُہُ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہ﴾ میں،چوتھی دفعہ سورۃ سبا کی آیت﴿إِنْ نَشَأْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِنَ السَّمَاء﴾ میں اور پانچویں دفعہ سورۃ الطور کی آیت﴿وَإِنْ یَرَوْا کِسْفًا مِنَ السَّمَائِ سَاقِطًا یَقُولُوا سَحَابٌ مَرْکُومٌ﴾ میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ میں پہلے چار مقامات پر قراء کا اختلاف ہے۔ بعض نے اسے سین کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے سین ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ لیکن پانچویں مقام پر تمام قراء نے اس لفظ کو بالاتفاق سین ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔کسی نے سین کی زبر کے ساتھ نہیں پڑھا،