کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 51
گیارھویں مثال:لفظ ’’عمیت‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دو جگہ ذکر ہوا ہے۔ پہلی دفعہ سورۃ ہود کی آیت﴿فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ أَنُلْزِمُکُمُوہَا وَأَنْتُمْ لَہَا کَارِہُونَ﴾ اور دوسری دفعہ سورۃ قصص کی آیت﴿فَعَمِیَتْ عَلَیْہِمُ الْأَنْبَائُ یَوْمَئِذٍ فَہُمْ لَا یَتَسَائَ لُون﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔سورۃ ہود میں واقع لفظ کی قراء ت میں تو قراء کا اختلاف ہے۔بعض نے اسے عین کی پیش اور میم مکسورہ کی تشدید کے ساتھ ’’فَعُمِّیَتْ‘‘ پڑھا ہے اوربعض نے میم کی زبر اورمیم مکسورہ ساکن کے ساتھ ’’فَعَمِیَتْ‘‘ پڑھا ہے۔لیکن سورۃ قصص میں تمام قراء نے اس لفظ کو بالاتفاق عین کی فتح اورمیم ساکن کے ساتھ ’’فَعَمِیَتْ‘‘ ہی پڑھا ہے۔ اگر قراءات کااختلاف رسم کا مرہون منت ہوتا تو پھر مذکورہ دونوں مقامات پر قراء کا اختلاف ہونا چاہیے تھا۔ ایک مقام پر اختلاف اور ایک مقام پر اتفاق،اس کی توجیہ سوائے اس کے ممکن نہیں ہے کہ قراءات کی بنیاد یقینا نقل تواتر اور سماع ہے،رسم مصحف کا حرکات سے خالی ہونا ہرگز نہیں ہے۔ بارھویں مثال:لفظ ’’نسقی‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ چار بار آیاہے۔ پہلی دفعہ سورۃ النحل کی آیت﴿نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ﴾ میں،پھر سورۃ المؤمنون کی آیت﴿نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہَا﴾ میں،اس کے بعد سورۃ الفرقان کی آیت﴿وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِیَّ کَثِیرًا﴾ میں اور اس کے بعد سورۃ القصص کی آیت﴿لَا نَسْقِی حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعَائُ وَأَبُونَا شَیْخٌ کَبِیر﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ النحل اور سورۃ المؤمنون میں لفظ ’’نسقیکم‘‘ کے با رے میں قراء نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے دونوں جگہ نون کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے تو بعض نے دونوں جگہ نون کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے دونوں جگہ نون کی جگہ تاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔لیکن سورۃ الفرقان میں تمام قراء نے بالاتفاق نون کی پیش کے ساتھ ’’نُسْقِیَہُ‘‘ پڑھا ہے۔ حالانکہ اس لفظ کا رسم بھی نقطوں اور اعراب سے خالی ہونے کی وجہ سے مذکورہ دونوں الفاظ کی طرح تینوں قراءات کا احتمال رکھتا ہے۔ لیکن اس کلمہ میں تاء کے ساتھ قراء ت آیت کے نظم و سیاق سے