کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 50
﴿فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ میں،ساتویں دفعہ سورۃ الفتح کی آیت﴿إِنْ أَرَادَ بِکُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِکُمْ نَفْعًا﴾ میں،آٹھویں بار سورۃ الجن کی آیت﴿قُلْ إِنِّی لَا أَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔اور سوائے سورۃ الفتح کے ہر جگہ تمام قراء نے بالاتفاق اسے ضاد کی زبرکے ساتھ پڑھا ہے۔ سورۃ الفتح میں بعض نے اسے ضاد کی زبر اور بعض نے ضاد کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔یہ دونوں لغات ہیں۔اور دونوں ضرر اور نقصان کے معنی میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قراءات میں رائے اور اجتہاد کو قطعاً کو ئی دخل نہیں ہے۔یہ سراسر وحی ہیں اور اس کی بنیاد سند اور نقل صحیح پر ہے۔
دسویں مثال:لفظ ’’حزن‘‘ قرآن کریم میں معرفہ اور نکرہ کے طور پر پانچ جگہ استعمال ہوا ہے۔ پہلی دفعہ سورۃ التوبۃ کی آیت﴿وَأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا﴾ میں،دوسری مرتبہ سورۃ یوسف کی آیت﴿وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیمٌ﴾ میں،تیسری بار سورۃ یوسف کی آیت﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللّٰہ﴾ میں،چوتھی دفعہ سورۃ القصص کی آیت﴿فَالْتَقَطَہُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَہُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا﴾ میں،پانچویں مرتبہ سورۃ الفاطر کی آیت﴿وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَن﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ خواہ معرفہ استعمال ہو یا نکرہ،اس میں دو لغات ہیں اور دونوں کا معنی ایک ہی ہے،ایک لغت حاء کی پیش اور زاء ساکن کے ساتھ ہے اور دوسری حاء کی زبر اور زاء ساکن کے ساتھ ہے۔ لیکن قراء نے صرف سورۃ القصص میں اس لفظ کی قراء ت میں اختلاف کیا ہے۔بعض نے اسے حاء کی پیش اور زاء ساکن کے ساتھ اور بعض نے حاء اور زاء دونوں کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ لیکن سورۃ التوبۃ اور سورۃ فاطر میں اس لفظ کو قراء نے بالاتفاق حاء اور زاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اورسورۃ یوسف کے دونوں مقامات پر حاء کی پیش اورزاء ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔یہ اس حقیقت کی سب سے واضح دلیل ہے کہ قراءات کا دارو مدار نقل وروایت پر ہے،رسم الخظ پر قطعاً نہیں ہے۔