کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 49
میں یہ دو لغات ہیں۔ لیکن سورۃ الکہف کی آیت﴿وَہَیِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴾ اور اسی سورۃ کی آیت﴿لِأَقْرَبَ مِنْ ہَذَا رَشَدًا﴾،سورۃ الجن کی آیت﴿أَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا﴾،اسی سورۃ کی آیت﴿فَأُولَئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا﴾ اور اسی سورۃ کی آیت﴿لَا أَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا﴾ میں لفظ ’’رَشَدًا‘‘ کو تمام قراء نے بالاتفاق راء اور شین کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔
اسی طرح سورۃ الجن کی آیت﴿یَہْدِی إِلَی الرُّشْدِ﴾ میں بھی تمام قراء نے بالاتفاق اس لفظ کو را ء کی پیش اور شین ساکن کے ساتھ پڑھاہے۔مذکورہ تمام مقامات میں یہ لفظ خواہ نکرہ استعمال ہوا ہے یا معرفہ،اس کی قراء ت میں اتفاق ہے یا اختلاف،اس کا معنی بہر حال ایک ہے۔ہر جگہ یہ لفظ حق،خیر و صلاح اور راہِ صواب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر قراءات ِقرآنیہ رسمِ مصحف کے حرکات و سکنات سے خالی ہونے کا نتیجہ ہوتیں تو یہ لفظ مذکورہ بالا تمام مواقع پر دو قراء توں کے ساتھ پڑھا جاتا،عربی لغت میں ان دونوں قراءاتوں کی گنجائش موجود ہے۔اور معنوی اعتبارسے بھی دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔تو قراء کا بعض جگہ اس لفظ کو ایک ہی انداز سے پڑھنا اور بعض جگہ دو طریقوں سے پڑھنا،اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ قراءات کی بنیادنقلِ صحیح ہے۔اور اس میں رسم مصحف کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔
نویں مثال:لفظ ’’ضَرًّا‘‘ قرآن کریم میں درج ذیل مقامات پر آیا ہے پہلی دفعہ سورۃ المائدہ کی آیت﴿قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُون اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا﴾ میں،دوسری مرتبہ سورۃ الاعراف کی آیت﴿قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ﴾ میں،تیسری بار سورۃ یونس کی آیت﴿قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ﴾ میں،چوتھی دفعہ سورۃ طہ کی آیت﴿أَفَلَا یَرَوْنَ أَلَّا یَرْجِعُ إِلَیْہِمْ قَوْلًا وَلَا یَمْلِکُ لَہُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا﴾ میں،پانچویں مرتبہ سورۃ الفرقان کی آیت﴿وَلَا یَمْلِکُونَ لِأَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا﴾ میں،چھٹی بار سورۃ سبأ کی آیت