کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 48
اس سلسلہ کی ساتویں مثال:لفظ ’’تخرجون‘‘ ہے:
سورۃ الاعراف کی آیت﴿قَالَ فِیہَا تَحْیَوْنَ وَفِیہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُونَ﴾،سورۃ الروم کی آیت﴿وَیُحْیِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَکَذَلِکَ تُخْرَجُونَ﴾،سورۃ الزخرف کی آیت﴿فَأَنْشَرْنَا بِہِ بَلْدَۃً مَیْتًا کَذَلِکَ تُخْرَجُونَ﴾ اور سورۃ الجاثیۃ کی آیت﴿فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُونَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُونَ﴾ میں لفظ ’’تخرجون+یخرجون‘‘ کی قراء ت کے متعلق قراء کا اختلاف ہے۔بعض نے اسے فعل مجہول کی بناء پر پہلے حرف (تاء) کی پیش اور تیسرے حرف (راء)کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اوربعض نے فعل معروف کی بنا ء پر پہلے حرف کی زبر اور حرف (راء)کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔لیکن سورۃ الروم کی آیت﴿ثُمَّ إِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ﴾ میں تمام قراء نے بالاتفاق اسے فعل معروف کی بناء پر تاء کی زبر اور راء کی پیش کے ساتھ ’’تَخْرُجُونَ‘‘ پڑھا ہے۔حالانکہ یہاں بھی مصاحف کے حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے سابقہ مقامات کی طرح دونوں قراءات کی گنجائش موجود تھی۔ یہاں فعل مجہول کی قراء ت میں عربی لغت رکاوٹ تھی اور نہ آیت کا مفہوم مانع تھا۔رکاوٹ صرف یہی تھی کہ یہاں فعل مجہول کی قراء ت سند و روایت سے ثابت نہیں تھی،لہٰذا کسی نے بھی اس کو نہیں پڑھا۔ اس سے یہ حقیقت مبرہن ہو جاتی ہے کہ متنوع قراءات کا سر چشمہ وحی اور براہ راست اخذ و سماع کے سوا کچھ نہیں ہے اور مصاحف کے حرکات سے خالی ہونے کا قراءات کے ظہور میں قطعاً کوئی کردار نہیں ہے۔
آٹھویں مثال:قراء کاسورۃ الاعراف کی آیت﴿وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا﴾ میں لفظ ’’الرشد‘‘ اور سورۃ الکہف کی آیت﴿ہَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾ میں لفظ ’’رُشْدًا‘‘ کی قراء ت میں اختلاف ہے۔ بعض نے ان دونوں الفاظ کو راء کی پیش اور شین ساکن کے ساتھ پڑھاہے اور بعض نے راء اور شین کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ لفظ ’’بخل‘‘،’’حزن‘‘ اور ’’سقم‘‘ کی طرح اس لفظ