کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 47
اور یہ بھی ثابت ہے کہ اہل مدینہ کے امام ابو جعفر نے اس کے برعکس سورۃ الانبیاء میں تو لفظِ ’’یحزن‘‘ کو یاء کی پیش اور زاء کی زیر کے ساتھ ’’یُحْزِن‘‘ پڑھا ہے،لیکن باقی تمام مقامات پر اسے یاء کی زبر اورزا کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔نیزقراء ت کے ان دونوں ائمہ نے قراءات کے سلسلہ میں نقل اور روایت کا التزام کیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر قراءات کا باعث مصاحف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا ہے تو پھر ان دو ائمہ کے درمیان اس لفظ کے بارے میں یہ فرق کیوں ہے ؟جبکہ سب جگہ اس لفظ کا رسم ایک ہے اور لغوی اعتبار سے بھی دونوں قراءات کی گنجائش ہے اور دونوں کا معنی بھی ایک ہے۔ لغت میں ’’ حزنہ و أحزنہ‘‘ کا معنی ہے:’’اس معاملہ نے اسے رنجیدہ،فکر مند اور غمزدہ کر دیا۔‘‘ اور سیاقِ کلام بھی اس معنی کو قبول کرنے سے ابا نہیں کرتا۔
اس سلسلہ کی چھٹی مثال:لفظ ’’مدخلا ‘‘ ہے،جو قرآن میں تین دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ایک دفعہ سورۃ النساء کی آیت﴿إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا﴾ میں اور دوسری بار سورۃ الحج کی آیت﴿لَیُدْخِلَنَّہُمْ مُدْخَلًا یَرْضَوْنَہ﴾ میں۔ بعض قراء نے دونوں جگہ اسے میم کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے دونوں جگہ زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔لیکن تیسری جگہ سورۃ الاسراء،آیت﴿وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ﴾ میں سب قراء نے بالاتفاق اس لفظ کو میم کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے،حالانکہ عربی لغت کی رو سے سابقہ دونوں مقامات کی طرح یہاں بھی میم کی زبر کے ساتھ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔لیکن اس جگہ کسی قاری نے بھی اسے میم کی زبر کے ساتھ نہیں پڑھا۔اگر قراءات ِقرآنیہ کا سرچشمہ رسم مصحف ہوتا تو یقینا پچھلے دونوں مقامات کی طرح اس جگہ بھی اس لفظ کو میم کی پیش اورزبر کی دونوں قراءات کے ساتھ پڑھا جاتا۔یہاں چونکہ میم کی زبر کے ساتھ قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،اس لیے تمام قراء نے بالاتفاق اسے میم کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔ثابت ہوا کہ قراءات کا منبع و ماخذ وحی الٰہی اور نقل ِتواتر ہے،رسم اور کتابت قطعاً نہیں ہے۔