کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 46
أَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ کَرْہًا﴾ میں،تیسری بار سورۃ التوبۃ کی آیت﴿قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا لَنْ یُتَقَبَّلَ مِنْکُمْ﴾ میں،چوتھی بار﴿وَلِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا﴾ میں،پانچویں بار سورۃ فصلت،آیت﴿فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا﴾ میں اور چھٹی بار سورۃ احقاف،آیت﴿حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہاں پہلے،چوتھے اور پانچویں مقام پر تمام قراء نے اس لفظ کو بالاتفاق کاف کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے،البتہ دوسرے،تیسرے اور چھٹے مقام پر قراء کا اختلاف ہے۔ یہاں بعض نے اسے کاف کی پیش اور بعض نے کاف کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ لغات کا اختلاف ہے،لیکن دونوں کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ مصاحف اگر حرکات سے خالی ہوں تو چھ کے چھ مقامات پر پیش اور زبر کی دونوں قراءات کی گنجائش موجود ہے،لیکن پہلے،چوتھے اور پانچویں مقام پر کسی نے بھی اس لفظ کو پیش کے ساتھ نہیں پڑھا۔تو اگر مصاحف کا حرکات سے خالی ہونا اختلاف قراءات کا باعث ہوتا تو پھرقراء کا اختلاف چھ کے چھ مقامات پر ہونا چاہیے تھا۔ رسم الخط ایک ہونے کے باوجود بعض مقامات پر قراء ایک ہی قراء ت پر متفق ہیں اور بعض مقامات پر ان کے درمیان اختلاف چہ معنی دارد ؟ یقینا ً یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ اختلافِ قراءات کی بنیاد نقل و روایت ہے۔ مصاحف کے حرکات سے خالی ہونے کا اختلاف قراءات میں کوئی دخل نہیں ہے۔ پانچویں مثال:ملاحظہ کیجئے:یہ بات ثابت ہے کہ امام نافع رحمہ اللہ نے سورۃ یسٓ کی آیت﴿فَـلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ﴾ سورۃ الأنعام کی آیت﴿قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِی یَقُولُونَ﴾ اور سورۃ المجادلہ کی آیت﴿لِیَحْزُنَ الَّذِینَ آمَنُوا﴾ میں لفظ ’’یحزن‘‘کو یاء کی پیش اور زاء کی زیر کے ساتھ ’’یُحْزِن‘‘ پڑھا ہے۔لیکن سورۃ الانبیاء کی آیت﴿لَا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْأَکْبَر﴾ میں اس لفظ کو یاء کی زبر اور زا کی پیش کے ساتھ ’’یَحْزُن‘‘ پڑھا ہے۔