کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 45
ثبوت ہے کہ قراءات کا اصل سرچشمہ براہ راست سماع ہے،رسم مصحف قطعاً قراءات کا ماخذ نہیں ہیں۔
اس سلسلے کی تیسری مثال:لفظ ’’الصاعقۃ‘‘ ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں کہیں معرفہ تو کہیں نکرہ چھ بار آیا ہے:
سب سے پہلے سورۃ البقرۃ کی آیت﴿فَأَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ﴾ میں،اس کے بعد سورۃ النساء کی آیت﴿فَأَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِم﴾ میں،تیسری اور چوتھی بار سورۃ فصلت کی آیت﴿فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَثَمُودَ﴾ میں،پانچویں بار سورۃ فصلت کی آیت﴿فَأَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْن ِ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾ میں اور چھٹی بار سورۃ الذاریات کی آیت﴿فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّہِمْ فَأَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَہُمْ یَنْظُرُونَ﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔اس لفظ کا رسم ان چھ جگہ پر تمام مصاحفِ عثمانیہ میں صاد کے بعد بغیر الف کے ہے۔اس کے باوجودپہلے پانچ مقامات پر اس لفظ کو تمام قراء نے متفقہ طور پر صاد کے بعد اثبات الف اور عین کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔ لیکن چھٹے مقام پر قراء کا اختلاف ہے۔بعض نے اسے پہلے پانچ مقامات کی طرح صاد کے بعد اثبات الف اور عین کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔اوربعض نے صاد کے بعد حذف الف اور عین ساکن کے ساتھ ’’الصَّعْقَۃُ‘‘ پڑھا ہے۔البتہ دونوں قراءات کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔سوچئے!اگر قراءات کا اختلاف رسم کا مرہون منت ہوتا تو چھٹے مقام کی طرح پہلے پانچ مقامات پر بھی قراء کا اختلاف ہوتا،لیکن تمام قراء پہلے پانچ مقامات پر متفق ہیں،اختلاف صرف چھٹے مقام پر ہے۔ثابت ہوا کہ قراءات میں اعتماد کی اصل بنیاد رسم اور کتابت نہیں بلکہ وحی اور روایت ہے۔
چوتھی مثال:’’کرہا‘‘ ہے۔ یہ لفظ بھی قرآن میں چھ بار آیا ہے۔پہلی بار سورۃ آل عمران،آیت:﴿وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ﴾ میں،دوسری بار سورۃ النساء کی آیت﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَکُمْ