کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 43
نہیں ہے۔
چوتھي قسم:… وہ قراءات جن کی سند صحیح نہیں یا سرے سے ان کی کوئی سندہی نہیں ہے۔ مثلاً:﴿وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِأَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ﴾ میں بعض قراء نے لفظ ’’اِیَّاہُ‘‘ کو ہمزہ کے کسرہ (زیر) اور یائے مشدَّدہ کے بجائے ہمزہ کی فتح (زبر) اور باء کے ساتھ ’’أَبَاہُ‘‘ پڑھا ہے۔ یہ قسم قطعاً قرآن نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کی تلاوت کو کسی حال میں عبادت قرار دیا جا سکتا ہے۔مسلمانوں کے اجماع کی رو سے اس کی تلاوت حرام ہے۔ مؤخرالذکر دونوں اقسام بالاتفاق قرآن نہیں ہیں،حالانکہ مصحف کے رسم میں ان کی گنجائش موجود ہے۔یہ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ قراءات قرآنیہ کے وجود میں رسم کا کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔
اس دلیل کی مزید وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ایسے کلمات موجود ہیں،جن کا رسم ہر جگہ ایک جیسا ہے،لیکن ان میں سے بعض مقامات پر رسم کے مطابق ایک سے زائد قراءات ہیں جو متواتر ہیں۔لیکن بعض مقامات پر تمام قراء ایک ہی قراء ۃ پر متفق ہیں اور ایک کے سوا کوئی بھی قراء ۃ صحیح ثابت نہیں ہے،باوجودیکہ رسم دیگر قراءات کا بھی متحمل ہے۔اس کی چند مثالیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں:
پہلی مثال:لفظ ’’مالک‘‘ ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں تین مقامات پر صفت یا صفت کے حکم میں استعمال ہوا ہے:پہلی دفعہ سورۃفاتحہ کی آیت ۴:﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ﴾ میں،دوسری بار سورۃ آل عمران کی آیت﴿قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ﴾ میں اور تیسری بار سورۃالناس کی آیت ۲:﴿ مَلِکِ النَّاسِ﴾ میں استعمال ہوا ہے۔
ان تینوں جگہ پر اس کلمہ کا رسم میم کے بعد حذفِ الف کے ساتھ ایک ہی ہے،لیکن قراء کا اختلاف صرف ایک جگہ سورۃ فاتحہ میں ہے۔بعض قراء نے اسے حذف ِالف کے ساتھ ’’مَلِکِ‘‘ پڑھا ہے اور بعض نے اثبات الف کے ساتھ ’’مٰلِکِ‘‘ پڑھا ہے۔لیکن سورۃ آل عمران اور سورۃ الناس میں تمام قراء اثباتِ الف کے ساتھ ایک ہی قراء ۃ پر متفق ہیں،حالانکہ