کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 42
دوسری قسم:ان قراءات کی ہے جو بذریعہ خبرِ واحد مروی ہیں اور ان کی سند صحیح ہے۔ہر طبقہ میں،یعنی شروع سے لے کر آخر سند تک اسے ثقہ اور ضابط راویوں نے روایت کیا ہے۔ نیز فنِّ قراء ت کے ماہرین کے ہاں یہ قراءات انتہائی مشہور اورعلمائے قراء ت کے ہاں انہیں تسلیم و قبولیت کا شرف حاصل ہے۔مثلا ً اللہ تعالیٰ کا فرمان:﴿وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا﴾ (الأعراف 58) یہاں لفظ ’’یَخْرُجُ‘‘ میں ایک قراء ۃ،یاء کی پیش اور راء کی زیر کے ساتھ ’’یُخْرِجُ‘‘ بھی ہے۔اور فرمان ِالٰہی:﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (التوبۃ:19) یہاں لفظ ’’سِقَایَۃَ‘‘ میں ایک قراء ۃ سین کی پیش اور حذف ِیاء کے ساتھ ’’سُقَاۃ ً ‘‘ بھی ہے اور یہ ’’ساق‘‘ کی جمع ہے،جیسا کہ ’’رماۃ‘‘ ’’رام‘‘ کی جمع ہے اور لفظ ’’عِمَارَۃَ‘‘ میں ایک قراء ۃ عین اور میم کی زبر،اس کے بعد حذف ِالف کے ساتھ ’’عَمَرَۃَ‘‘ بھی ہے۔ یہ ’’عامر‘‘ کی جمع ہے،جیسا کہ ’’صنعۃ‘‘ ’’صانع‘‘ کی جمع ہے۔یہ دونوں قراءات اگرچہ خبر واحد سے ثابت ہیں،لیکن نہ صرف ان کی سند صحیح ہے،بلکہ قراء کے ہاں یہ مشہور و معروف اور انہیں تلقی بالقبول بھی حاصل ہے اوررسم مصحف بھی ان کا متحمل ہے۔ مذکورہ دونوں اقسامِ قراءات بالاتفاق قرآن ہیں۔ نماز یااس کے علاوہ ان کی تلاوت عبادت ہے۔ان کو قرآن تسلیم کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے۔ان کا انکار قطعاً گناہ ہے۔ جو شخص ان کا انکار کرتا ہے وہ بلاشبہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ تیسري قسم:… ان قراءات کی ہے جو بذریعہ خبر واحد ثابت ہیں اور ان کی سند صحیح ہے،لیکن وہ فنِ قراء ت کے ماہرین کے ہاں نہ تو زیادہ مشہور ہیں اور نہ ہی انہیں علماے قراء ت کے ہاں قبول ِعام حاصل ہے،مثلا ًفرمان ِالٰہی:﴿وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیہًا﴾ (الأحزاب:69) میں ایک قراء ۃ عین کی فتح،باے ساکن اور دال کی تنوین(دو زبر) کے ساتھ ’’وَکَانَ عَبْداً لِلّٰہِ وَجِیْہاً‘‘ اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔قراء ۃ کی یہ قسم شاذ ہے۔ نماز یا اس کے علاوہ اس کی تلاوت حرام ہے اوراس کی تلاوت کو عبادت قرار دینا قطعاً جائز