کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 41
باوجود اس کے کہ رسمِ عثمانی ان کا متحمل تھا۔ہر مصحف کے ساتھ ماہرقارئ قرآن کو بھیجنے کا مقصداس کے سوا کچھ نہ تھاکہ امت مسلمہ کو صرف انہیں قراءات کا پابند کر دیا جائے جو تواتر سے ثابت اور رسم عثمانی کے مطابق ہیں۔اگر قراءات قرآنیہ کا سر چشمہ و ماخذ صرف رسمِ مصحف ہوتا اورہر شخص کو اجازت ہوتی کہ وہ ہر ایسی قراء ت پڑھ سکتا ہے،جو رسم عثمانی کے مطابق ہے،قطع نظراس سے کہ وہ تواترسے ثابت ہے یا اخبار آحاد سے،عرضہ اخیرہ کے وقت اسے باقی رکھا گیا تھا یا منسوخ کر دیا گیا تھا،اس کی کوئی سند ہے یا نہیں ہے۔[1] تو پھر عثمانی حکومت کو ہر مصحف کے ساتھ ایک ماہر قارء قرآن بھیجنے کی قطعاً کو ئی ضرورت نہ تھی۔ہر مصحف کے ساتھ قراءات کے ایک ماہر عالم کو تعلیم کے لیے متعین کرنا،اس حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہے کہ قراءات کا تمام تر انحصار سماع اورنقل تواتر پر تھا اور رسم الخط اور کتابت پر قطعاً نہ تھا۔
تیسری دلیل:
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اختلافِ قراءات کا سبب مصاحف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہوناتھا،یعنی اگر قراءات قرآنیہ رسم مصحف کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہوتیں تو پھر ہر وہ قراء ت صحیح اور قرآن متصور ہونی چاہیے تھی جو رسم عثمانی کے مطابق تھی،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔رسمِ مصاحف جن قراءات کا متحمل ہوسکتا ہے،ہم انہیں چار اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:
پہلي قسم:ان قراءات کی ہے جو بذریعہ تواتر ثابت ہیں۔مثلا ًفرمان الٰہی:﴿وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنْشُورًا﴾ (الإسراء:13) یہاں لفظ ’’نُخْرِجُ‘‘ میں تین قراءاتیں ہیں۔ پہلی قراء ۃ نون کی پیش اور راء کی زیر کے ساتھ ’’نُخْرِجُ‘‘ ہے۔ دوسری قراء ۃ یاء کی پیش اور راء کی فتح کے ساتھ ’’یُخْرَجُ‘‘ ہے اور تیسری قراء ۃ یاء کی فتح اور راء کی پیش کے ساتھ (یَخْرُجُ) ہے۔یہ تینوں قراءات تواترسے ثابت ہیں اور یہ سب رسمِ مصحف میں سما سکتی ہیں۔
[1] جیسا کہ گولڈ زیہر کا نقطہ نظر ہے کہ قراء ات میں اختلاف کا سبب رسم عثمانی کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا ہے.