کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 40
بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ سلوک،ان کی گردن میں چادر ڈال کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنا،اس حقیقت پر بین دلیل ہے کہ قراءات قرآنیہ کا منبع و ماخذ وحی الٰہی ہے۔عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جب ہشام کو ایسی قراء ت پڑھتے ہوئے سناجوانہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی تو ان کا ماتھا ٹھنکا،کیونکہ اس وقت شاید انہیں معلوم نہیں تھاکہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے،لہٰذا انہوں نے سمجھاکہ ہشام نے اپنی طرف سے قراء ت میں تبدیلی کی ہے،لیکن جب انہیں زبانِ رسالت سے پتہ چل گیا کہ اس قراء ت کا ماخد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور قرآن کریم اللہ کی خاص رحمت اور امت کی آسانی کے لیے متعدد وجوہ پر نازل ہوا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھائی ہیں تو آپ فوراً مطمئن ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے ہشام یا کسی اورصحابی سے اس سلسلہ میں کبھی تعرض نہیں کیا۔ اوراس وقت تعرض کی وجہ صرف یہی تھی کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اندیشہ تھا کہ کہیں یہ کتاب اللہ میں تبدیلی نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ حق کے معاملے کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ کوئی خوف انہیں حق کے سلسلے میں مداہنت پر آمادہ کر سکتا تھا۔
دوسری دلیل:
تاریخ کی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ کی تدوین کے بعد انہیں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا تھا بلکہ خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ہرمصحف کے ساتھ ایک ماہر قارئِ قرآن بھی بھیجا تھا،تاکہ وہ اس کے مطابق مسلمانوں کوقرآن کریم کی تعلیم دے۔چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوحکم ملا کہ وہ مدینہ منورہ میں قرآن پڑھائیں۔ عبد اللہ بن السائب کومکہ مکرمہ روانہ کیا گیا۔ مغیرہ بن ہشام کو شام،عامر بن عبد قیس کو بصرہ اور ابو عبدالرحمن السلمی کو کوفہ میں تعلیمِ قرآن پر مامور کیا گیا۔ان میں سے ہر قاریٔ قرآن اپنے اہل علاقہ کو صرف وہی قراء ت سکھانے کا پابند تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت تھی اوررسمِ عثمانی ان کا متحمل تھا۔اخبار آحاد اور منسوخ قراءات اس تعلیم میں شامل نہیں تھیں،