کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 39
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کرنا:’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ہشام رضی اللہ عنہ کوسورۃ الفرقان ایسے حروف پر پڑھتے سنا ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے۔‘‘ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی قراء ت پڑھ کر سنائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی تھی۔‘‘ نیز یہاں حدیث میں لفظ ’’إقراء‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پڑھانے کی نسبت)کا بار بار تذکرہ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ تمام تر قراءات کا دارو مدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سماع پر ہے۔اسی طرح حدیث نمر 3،6،8،9 میں لفظِ ’’إقراء‘‘ کا تکرار اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ قراءات قرآنیہ توقیفی [1] ہیں اور ان کی بنیاد براہ راست تلقین و تلقی اور نقل وسماع پر ہے۔اور قراء ت میں اختلاف کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے والے دو آدمیوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص اسی طرح قرآن پڑھے،جس طرح اسے سکھایا گیا ہے۔‘‘ کیا اس سے واضح نہیں ہوتا کہ قراء ت کی صحت کا دارو مدار سر اسرسماع اور بالمشافہہ روایت پر ہے ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قراءات کے بارے میں تنازع اور ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا،جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں بیان ہوا ہے،اس حقیقت کی واضح ترین دلیل ہے کہ قراءات قرآنیہ میں رائے اور خیال کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔کسی انسان کو اپنی طرف سے چمنستانِ قراءات میں کھلواڑ کی قطعاکوئی اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی مرضی اور قیاس سے ایک عبارت کو دوسری عبارت اور کسی لفظ کو اس کے مترادف دوسرے لفظ سے بدل دے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الفاظِ قرآن کے ضبط کے سلسلے میں انتہائی حساس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے قرآن کے ایک ایک کلمہ اور حرف کی تحقیق کاایسا کڑا،شاندار اور انتہائی بلند معیار قائم کر رکھا تھا کہ ادنی ٰسی تصحیف و تبدیلی بھی دامنِ قرآن میں راہ نہ پاسکتی تھی۔ حضرت عمر
[1] یعنی قراء ات قرآنیہ میں کسی انسان کی رائے اور اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہے،بلکہ ہر قراء ۃ بسند تواتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.