کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 37
حدیث نمبر9 زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک سورت پڑھائی ہے اور زید رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بھی پڑھائی ہے لیکن تینوں کی قراء ت ایک دوسرے سے مختلف ہے،میں کس کی قراء ت اختیار کروں؟ آپ خاموش رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں موجود تھے،تو انہوں نے فرمایا:’’تم میں سے ہر شخص اسی طرح پڑھے،جس طرح اسے سکھایا گیا ہے،وہی حسین و جمیل ہیں۔[1] حدیث نمبر 10 حافظ ابو یعلی المو صلی نے اپنی مسند الکبیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ امیر المؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ایک دن ممبر پر کھڑے ہو کر مجمع عام کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث:((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ کُلُّہَاشَافٍ کَافٍ)) سنی ہے،میں اسے اللہ کا واسطہ دے کر حکم دیتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے۔یہ سن کر اتنے لوگ کھڑے ہو گئے کہ انہیں شمارکرنا ممکن نہیں تھا۔سب نے گواہی دی کہ قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔ہر حرف اپنی جگہ پرکافی اور اپنے اندر راہنمائی کا مکمل سامان رکھتا ہے۔اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:میں بھی ان لوگوں کے ساتھ یہی گواہی دیتا ہوں۔[2] راوی کا یہ بیان کہ’’اتنے لوگ کھڑے ہو گئے کہ انہیں شمارکرنا ممکن نہیں تھا۔‘‘ اس حدیث کے متواتر ہونے کی واضح دلیل ہے۔نیز تمام حفاظ ِحدیث اس حدیث کے متواتر ہونے پر متفق ہیں،جن میں امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ سر فہرست ہیں۔
[1] اسے امام ابن جریر طبری اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے. [2] المقصد العلی فی زوائد أبی یعلی المو صلی: 3؍120،رقم:1216۔ أبو الحسن نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (المتوفی: 807ہـ)،تحقیق: سید کسروی حسن،دار الکتب العلمیۃ،بیروت - لبنان.