کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 35
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا:یہ آیت یوں نہیں،بلکہ یوں ہے۔وہ آدمی کہنے لگا:مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اسی طرح پڑھائی ہے۔وہ دونوں وہاں سے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حقیقتِ حال عرض کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ،فَأَیُّ ذَلِکَ قَرَأْتُمْ أَصَبْتُمْ،فَلَا تَمَارَوْا فِی الْقُرْآنِ،فَإِنَّ الْمِرَائَ فِیہِ کَفَرٌ۔))[1]
’’بلاشبہ یہ قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے،ان میں سے جو بھی تم پڑھو گے،درست ہو گا،قرآن کریم میں جھگڑا مت کرو،اس میں جھگڑنا بلاشبہ کفر ہے۔‘‘
ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں تفسیرِ قرآن میں اختلاف سے نہیں،بلکہ الفاظِ قرآن میں اختلاف سے منع کیا گیا ہے۔یعنی اگر ایک شخص قرآن کو ایک حرف کے مطابق پڑھتا ہے،اور دوسرا شخص کہے:یہ یوں نہیں،بلکہ یوں ہے،حالانکہ دونوں وجوہ منزل من اللہ ہیں۔ تو اس صورت میں اگر ایک شخص دوسرے کی قراء ت کا انکار کرے گا،تویہ کفر ہو گا،کیونکہ اس نے ایک ایسے حرف کا انکار کیا ہے،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔اورایک روایت میں:((فَإِنَّ مِرَائً فِیہِ کُفْرٌ)) کے الفاظ ہیں۔اس میں لفظ ’’مِرَائً‘‘ نکرہ استعمال ہوا ہے اور نکرہ یہاں تقلیل کے معنی میں ہے،جس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کے بارے میں کم ترین جھگڑا بھی کفر کا موجب ہے۔‘‘
حدیث نمبر7
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا:
[1] مسند الإمام أحمد بن حنبل،رقم:17819( إسنادہ صحیح)،فضائل القرآن1/337 للقاسم بن سلام.