کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 34
پڑھ سکتے ہوں۔قرآن میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے،فرمان الٰہی ہے:
﴿ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ﴾ (الجمعۃ:2)
’’وہی ہے جس نے امّیوں کے اندر ایک رسول خود انہیں میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے،ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((إِنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ لَا نَکْتُبُ وَلَا نَحْسَبُ)) یعنی ’’جس قوم کی طرف مجھے مبعوث کیا گیا ہے،اس وقت ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی اصل حالت پر ہیں،جس پر ان کی ماؤں نے انہیں جنم دیا تھا،لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے۔‘‘ اس پر مستزاد یہ کہ ان میں بے شماربوڑھے مرد و خواتین اور بچے بچیاں بھی ہیں۔اگر ایک ہی طریقہ پر انہیں قرآن پڑھنے کا مکلف ٹھہرایا گیا تو بڑی مشکل ہو جائے گی اور خدشہ ہے کہ یہ چیز کہیں ان کی قرآن سے دوری،انحراف اور اس کی تلاوت سے نفرت کا باعث نہ بن جائے۔تو اللہ تعالی نے امتِ محمدیہ پر خاص شفقت و رحمت فرماتے ہوئے حکم دیا کہ ان سات حروف میں سے جو آسان معلوم ہو،اس کے مطابق پڑھ لیا جائے۔چنانچہ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں:((فَمُرْہُمْ،فَلْیَقْرَئُ وا الْقُرْآنَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)) یعنی ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اپنی امت کو حکم دیں کہ وہ قرآن کریم کو سات حروف کے مطابق پڑھ لیا کریں۔‘‘ [1]
حدیث نمبر6
ابو قیس مولی عمر و بن العاص کا بیان ہے کہ ایک آدمی نے قرآن کی ایک آیت پڑھی۔
[1] مسند الإمام أحمد بن حنبل،رقم: 21204،(صحیح) تحقیق: شعیب الأرنؤوط - عادل مرشد،وآخرون.