کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 33
لیکن حدیث نمبر 3سے معلوم ہوتا ہے کہ سات حروف پر قرآن پڑھنے کاحکم چوتھی مرتبہ ملا تھا۔دونوں احادیث کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ یہ حکم جبریل علیہ السلام کی چوتھی دفعہ آمد کے موقع پر ہی ملا تھا،لیکن اس حدیث نمبر4 میں جبریل علیہ السلام کی آمد کے ایک موقع کو(اختصار کے پیش نظر )حذف کر دیا گیا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے یہ حکم:((وَلَکَ بِکُلِّ رِدَّۃٍ رَدَدْتُّکَہَا مَسْأَلَۃً تَسْأَلُنِیْہَا)) یعنی ’’میرے ہر حکم اور جواب کے بدلے میں آپ کو تین چیزیں مانگنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ ان الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تین دعائیں یقینا ًشرفِ قبولیت سے ہمکنار ہوں گی۔باقی دعائیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبول ہوتی تھیں،لیکن بعض کی قبولیت یقینی نہیں تھی۔ تـتـمہ:… وہ قراء ت جس سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے دو ساتھیو ں کے سامنے لاعلمی کا اظہارکیا تھا،وہ سورۃ النحل کی کوئی آیت تھی۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سی آیت تھی۔ حدیث نمبر5: ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی توفرمایا:اے جبریل! میں اَن پڑھ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں،جن میں نہایت بوڑھے مرد و عورتیں بھی ہیں،بچے بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی جنہوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! (فکر نہ کریں)قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔[1] حدیث کے بعض الفاظ کی تشریح: ’’أُمِّیِّیْنَ‘‘،یہ أُمِّیٌّ کی جمع ہے،اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو نہ لکھ سکتے ہوں اور نہ
[1] مسند احمد،رقم: 23398۔ سنن ترمذی،رقم: 2944۔ امام ترمذی رحمہ اللّٰه نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے.