کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 32
اس کا ایمان کتنا ہی راسخ اور یقین کتناہی محکم کیوں نہ ہو،کسی بھی وقت اس حادثہ سے دو چار ہو سکتا ہے۔اور ایسا ہونا بشری تقاضا اور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آیا،کیونکہ وہ اس وقت نہیں جانتے تھے کہ قرآن کریممختلف قراءات کے مطابق نازل ہوا ہے،لیکن جب پتہ چلا تو فورا ًہی یہ وسوسہ ان کے دل سے رفع ہو گیا۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کاشمار جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا تھا۔اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے،جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مکمل قرآن حفظ تھااورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدمیں جمع قرآن کمیٹی کے باقاعدہ ممبر تھے۔ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول:((وَ کَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَی اللّٰہِ)) یعنی ’’مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا،جیسے اللہ تعالی کو دیکھ رہاہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ وہ خیال کی گویا ایک رَو تھی جو بجلی کی طرح ان کے دل سے گزر گئی تھی۔اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وضاحت آگئی تو پورے یقین اور اعتماد سے حق کو پہچان لیا۔اور کون نہیں جانتا کہ ہم میں سے ہر انسان کو خیالات کی ایسی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے،جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اورکوئی بھی انسان اس قسم کے خیالات سے اپنے دل کو بچا نہیں سکتا۔ہر مومن کے دل کو ایسے شیطانی خیالات سے واسطہ پڑتاہے،لیکن جب اللہ کا لشکر نمودا ر ہوتا ہے تو ان مذموم خیالات کے پس پردہ شیطان کا لشکر بھاگ کر کسی اور دل میں نقب زنی شروع کر دیتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:((فَرَدَدْتُّ عَلَیْہِ أَنْ ہُوِّنَ عَلٰی أُمَّتِی)) اس میں ’’أن‘‘ تفسیریہ ہے،کیونکہ ’’رَدَدْتُّ‘‘ یہاں قول کے معنی میں ہے۔یعنی ’’میں نے جواب میں یہ کہا کہ میری امت پر آسانی کی جائے۔‘‘ اور یہی مفہوم دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:((أَسْأَلُ اللّٰہَ مُعَافَاتَہٗ وَ مَغْفِرَتَہٗ)) کا ہے۔ آپ کا فرمان:((فَرُدَّ إِلَیَّ الثَّالِثَۃَ اِقْرَأْہُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)) یعنی ’’ تیسری مرتبہ یہ حکم ملا کہ امت کو سات حروف پر قرآن پڑھاؤ۔‘‘ روایت کے ان الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تیسری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات حروف پرقرآن کریم پڑھنے کا حکم ملاتھا،