کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 31
اس لیے مارا تھا،تاکہ وہ اس مذموم شیطانی خیال کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں جو ان کے دل پر اثر انداز ہوا تھا۔اور لفظ((فرقا)) فاء اور راء کی فتح کے ساتھ،خوف،رعب اور گھبراہٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جن کو اللہ تعالی نے ایمان ِکامل اور یقین ِمحکم سے نوازا تھا۔ اختلافِ قراء ت کے سبب شیطان کے بہکاوے میں آگئے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ہاتھ جب سینہ پر پڑا تو اس کی برکت سے وہ شیطانی خیال ریزہ ریزہ ہو گیا اور پسینے کے ساتھ بہہ گیااور شیطان سے مغلوبیت کی شرمندگی کے زیر اثر نگاہیں اللہ تعالی کی طرف اٹھ گئیں۔‘‘
بعض روایات میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے اپنے دل میں شیطانی خیالات کو محسوس کیا،جس سے میرا چہراہ سرخ ہو گیا۔یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:((اَللّٰہُمَّ اَخْسِئْ عَنْہُ الشَّیْطَانَ)) کہ ’’اے اللہ،ان سے شیطان کو دور کر دے۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے:((اَللّٰہُمَّ أَذْہِبْ عَنْ أُبَیٍّ الشَّکَّ)) کہ ’’اے اللہ! ابیّ کا شک دورکرد ے۔‘‘
بہرحال ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے دل میں شیطانی خیال پیدا ضرور ہوا تھا،لیکن وہ زیادہ دیرٹھہر نہ سکا،بلکہ فورا ہی رخصت ہو گیا تھا،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ اس کے نور کے سامنے شکوک و شبہات اور حیرت و استعجاب کے اندھیرے اپنا وجود کھو دیتے تھے۔اور یہ حقیقت تو دین کے مسلمات میں سے ہے کہ محض شیطانی خیال اور وسوسہ پر انسان کا محاسبہ نہیں ہو گا،جب تک کہ وہ ان خواہشاتِ نفسانی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی کشتی ان کے بہاؤپر نہ چھوڑ دے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل شروع نہ کر دے۔لیکن اگر وہ ان خیالات کو دل سے جھٹک دینے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ یقینا ًاس کا مؤاخذہ نہیں کرے گا۔اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ شیطانی وسوسہ سے دوچارہوئے تھے اور نوع انسانی میں سے کوئی بھی انسان،خواہ