کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 30
حدیث کے بعض الفاظ کی تشریح:
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ((فَسُقِطَ فِیْ نَفْسِیْ مِنَ التَّکْذِیْبِ وَلَا إِذْ کُنْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ)) تو اس کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ’’میرے دل میں تکذیب کی ایسی خلش پیدا ہوئی جو کبھی،حتی کہ دورِ جاہلیت میں بھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔‘‘ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’میرے دل میں شک اور انکار کا ایسا کانٹا چبھا،جس کی تلخی دورِجاہلیت سے زیادہ شدید تھی۔‘‘
اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس جملہ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’شیطان نے میرے دل میں انکارِ نبوت کا ایسا کانٹا چھبو دیا جودورِجاہلیت سے زیادہ سخت تھا۔وہ دل جو دورِ جاہلیت میں غفلت اور شکوک وشبہات کی وادیوں میں بھٹکتا رہا تھا،اب پھر شیطان نے ایک لمحہ کیلئے اسے انکار وتکذیب پر آمادہ کر لیا تھا۔
اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو شیطان نے ایسا ورغلایا کہ ان کے دل کی حالت مکدر ہو گئی اورایمان متزلزل ہونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو ان کے سینے پر ہاتھ مارا،جس سے شکوک شبہات کا اندھیرا چھٹ گیا،باطن روشن ہو ا اور دل ایمان و یقین کی اسی تابناک حالت پر واپس آگیا۔پھر اس ہنگامی حالت کا خیال آتے ہی وہ خوف ِالٰہی سے کانپ اٹھے اور اللہ سے شرم و حیا کے مارے پورا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ ان کے دل میں آنے والا یہ شیطانی خیال بالکل اسی قبیل سے ہے،جیسے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اپنے دلوں میں کچھ ایسے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ ان کا زبان پر لانا بھی ہمارے لیے بڑا گراں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا واقعی تم یہ کیفیت محسوس کرتے ہو؟انہوں نے کہا:ہاں واقعی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ صریح ایمان کی نشانی ہے۔‘‘[1]
قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ
[1] صحیح مسلم،رقم:209۔ سنن ابی داؤد،رقم:5111.