کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 28
حَرْفٍ قَرَئُ وا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوا۔))[1] ’’اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ اپنی امت کو سات حروف پر قرآن پڑھائیں۔جس حرف کے مطابق بھی وہ قراء ت کریں گے،درست ہو گا۔‘‘ حدیث کے بعض الفاظ کی تشریح: (الأضاۃ) ہمزہ کی فتح اور ضاد معجمہ کے ساتھ،اس کا معنی ہے:’’پانی کا تالاب‘‘،اس کی جمع ’’أضًا‘‘ہے،جیسے ’’حصاۃ‘‘ کی جمع ’’حصًا‘‘ ہے اور اگر یہ ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ’’إضاۃ‘‘ ہو تویہ مدینہ منورہ میں ایک جگہ کا نام ہے اور بنو غفار کی طرف اس کی نسبت کی وجہ یہ ہے کہ یہ قبیلہ اسی جگہ مقیم تھا۔ اور جبریل علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا:((فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُ وا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوا۔)) امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو سات حروف تک اختیار ہے،ان سات سے تجاوز جائز نہیں ہے۔اور امت ان سات میں سے جس حرف کو چاہے آگے نقل کر سکتی ہے۔‘‘ حدیث نمبر:4 ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجدمیں تھا۔ ایک آدمی اندرداخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا۔ اس نے جو قراء ت پڑھی،وہ میں نہیں جانتا تھا۔ پھردوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا،اس نے جو قراء ت پڑھی،وہ پہلے شخص کی قراء ت سے مختلف تھی۔ جب ہم نماز پڑھ چکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،اس شخص نے جس قراء ت میں قرآن پڑھا ہے،وہ میرے لیے بالکل نئی ہے اور یہ دوسرا شخص،اس کی قراء ت اپنے ساتھی کی قراء ت سے مختلف ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:اب پڑھو۔ انہوں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قراء ت کی تعریف کی۔ یہ سن کر میرے دل میں تکذیب کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی جو شاید دورِجاہلیت میں بھی نہیں تھی۔
[1] صحیح مسلم،رقم: 821۔سنن ابی داؤد،رقم 1478۔سنن النسائی: 939.