کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 27
سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ کلہاشاف کاف)) ’’قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے،ہر حرف اپنی جگہ پرکافی اوراپنے اندر راہنمائی کا مکمل سامان رکھتا ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں الفاظ ہیں:’’ان میں سے ہرحرف اپنی جگہ پر صحیح ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ((فَاقْرَئُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنْہ)) یعنی ’’اللہ کی طرف سے نازل کردہ ان حروف میں سے جو تمہیں آسان معلوم ہو،وہ پڑھ لو۔‘‘ اس میں قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کرنے کی حکمت ومصلحت کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ اس کا مقصد امت کے لیے آسانی اور قراء تِ قرآن میں سہولت فراہم کرنا ہے،تاکہ ہر انسان اپنی سہولت کے مطابق وہ قراء ت کر سکے جو اس کی زبان پر سبک اور رواں ہو،اور پڑھتے ہوئے وہ کسی قسم کی دقت محسوس نہ کرے۔تو گویا اس حدیث میں قراء ت کی کیفیت کو بیان کرنا مقصد ہے،لیکن اللہ کے فرمان:﴿فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ میں کیفیت کی بجائے قراء ت کی مقدار بیان کرناپیش نظر ہے۔
حدیث نمبر:3
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو غفار کے تالاب کے پاس موجود تھے کہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ سے معافی اور بخشش کا طلب گار ہوں،میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔جبریل علیہ السلام دوسری بار تشریف لائے تو کہا:اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ اپنی امت کو دو حروف پر قرآن پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں کہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ جبریل علیہ السلام تیسری بار آئے تو کہا:اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ اپنی امت کو تین حروف پر قرآن پڑھائیں۔ فرمایا:میں اللہ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں،میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ جبریل علیہ السلام چوتھی بار آئے تو کہا:
((إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتَکَ الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ،فَأَیُّمَا