کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 25
سے سنا تھا۔‘‘
اور تاریخ شاہد ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ حق کے معاملے میں سخت،دین کے معاملے میں انتہائی غیرت منداور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے معاملے میں پختہ عزم اور بلند حوصلہ کے مالک انسان تھے۔اسی لیے انہوں نے ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ سخت رویہ اختیار کیا،کیونکہ ان کا غالب گمان یہ تھا کہ ہشام نے قراء ت میں غلطی کی ہے۔اور اپنی طرف سے ایسی قراء ت وضع کی ہے جو شاید انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود عمرفاروق رضی اللہ عنہ کامؤاخذہ نہیں کیا،کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا،وہ ان کا اجتہاد تھا۔ اس سخت رویہ کے پیچھے درحقیقت قرآن کریم کے دفاع اوراس کی حفاظت کا جذبہ تھا۔ اور یہ خدشہ ان کے پیش نظر تھا کہ کہیں کوئی تصحیف و تبدیلی قرآن میں راہ نہ پا جائے۔
رہا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہشام رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا کہ ((کذبت)) تو اس بارے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے غالب خیال کی بنیاد پر ایسا کہا۔یا پھرکذب یہاں غلطی کے معنی میں ہے،کیونکہ اہل حجاز کے ہاں کذب کا لفظ غلطی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت دوسری طرح پڑھائی تھی،نہ کہ جیسا تم پڑھ رہے ہو اور تم نے قراء ت میں غلطی کی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ استدلال اپنے اجتہاداورغالب خیال کی بنیاد پر کیا تھا،کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ سبقتِ اسلام کی وجہ سے انہیں حفظِ قرآن میں زیادہ دسترس حاصل ہے۔اور یہ حقیقت بھی تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سبقتِ اسلام اور قرآن کے ساتھ والہانہ لگاؤ کی وجہ سے،جتنا قرآن یاد تھا،وہ انہیں ازبر تھا اور اس کا ثبوت یقینی تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کا سبب یہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سورت بہت پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کی تھی اوراس