کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 21
طریقوں سے پڑھنے کا احتمال پیدا گیا۔اور ہر قاری کو یہ اختیار تھا کہ اپنے ذوقِ نظر اوراطمینانِ قلب کے مطابق جس کو چاہے منتخب کر لے۔گویا اس کے خیال میں قراءات کا یہ اختلاف توقیفی یاسند وروایت پر مبنی نہیں بلکہ قراء کی ذاتی رائے اور اجتہاد کا نتیجہ ہے۔اس کے خیال میں یہ قراءات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہ وحی الٰہی کا ان میں کوئی دخل ہے۔اس کی رائے میں ان قراءات کے پیچھے درج ذیل دو اسباب کار فرما ہیں:(اول) مصاحف عثمانیہ میں حروف کا نقطوں سے خالی ہونا۔ (دوم) مصاحف میں حروف کا لغوی اورنحوی حرکات سے خالی ہونا۔ گولڈ زیہرکی رائے کا تجزیہ: مستشرق موصوف کا یہ دعویٰ دلائل سے سرا سر عاری،ظن و تخمین کا نتیجہ اور محض جھوٹ اورافتراء کا پلندہ ہے۔گولڈزیہر نے بڑی دیدہ دلیری سے مسلمانوں کی مقدس ترین متاع کتاب اللہ عزوجل کو ہدف تہمت بنایا ہے تاکہ لوگوں کا اعتمادو یقین اس سے اٹھ جائے اور انہیں اس شک میں مبتلا کر دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب غورو فکر اور تحقیق ودریافت کا میدان ہے نہ اس کے الفاظ،قراءات،روایات اورطرقِ ادا اور ضبط و ثقاہت کے تقاضوں پرپورے اترتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موصوف کی یہ رائے تاریخی حقائق سے متصادم اور تواتر سے ثابت ان نقلی دلائل کے خلاف ہے کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قراءات کا سرچشمہ وحی الٰہی اور ان کی اتباع کی اصل بنیاد وہ نقلِ صحیح ہے جو خلف وسلف سے ہوتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اور پھر جبریل امین علیہ السلام اور ذات باری تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ بلکہ یہ رائے عقلی مقدمات کے منافی،منطقی اصولوں سے بھی متصادم ہے اور پختہ فکر ِسلیم اسے تسلیم کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ زیرنظر سطور میں چند تاریخی حقائق اور نقلی و عقلی دلائل پیش کئے جارہے ہیں جو اس خیالِ خام کی ا صلیت کو واضح کر دیں گے۔