کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 20
آیت:17،سورۃ الحشرآیت:8،میں ’’سینصر‘‘ اور ’’من ینصر‘‘ جیسے الفاظ آئے ہیں۔‘‘ اس کے بعد گولڈ زیہر نے بطور مثال ان قراءات کا ذکر کیا ہے جو اس کے خیال میں مصاحف کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے وجود میں آئیں۔اس نے سورۃ الحجر کی آیت﴿مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَا کَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ﴾ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’فرشتوں کے نزول پر دلالت کناں اس لفظ کے متعلق قراء کا اختلاف ہے کہ آیا یہ لفظ ’’نُنُزِّلُ‘‘ہے یا ’’تَنْزِلُ‘‘ یا ’’تُنْزَلُ‘‘ ہے۔ یہ تمام قراءات مختلف علاقوں کی نمائندہ قراءات ہیں اور ہر کلمہ اپنے مناسب حال معنی دے رہا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’ حرکات کا یہ اختلاف بعض دفعہ معنوی اعتبار سے نہایت دور از کار تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔مثلا ًسورۃ الرعد کی آیت:﴿وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ﴾ ہے۔ اس جملہ میں درج ذیل قراء ت بھی وارد ہوئی ہے:﴿وَمِنْ عِنْدِہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ﴾ اور اسی میں حرکت کی تبدیلی نے ایک اور قراء ت:﴿وَمِنْ عِنْدِہٗ عُلِمَ الْکِتَابِ﴾ کو جنم دیا۔‘‘ گولڈ زیہر کا سرمایہ تحقیق ختم ہوا،اب اس پر ہمارا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ گولڈ زیہر کے نزدیک اختلاف قراءات کے اسباب اور اس کی تردید: گولڈ زیہر نے اپنے اس طویل اقتباس میں یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ قراءات میں اختلاف کاسبب اور ایک لفظ میں متعدد قراءات کی بنیاد عربی رسم الخط کی وہ خصوصیت تھی،جس میں مصاحف ِعثمانیہ کو تحریر کیا گیا تھا۔نقطے جو حروف کی پہچان کا ذریعہ ہیں اور حرکات جو حروف کے اعراب کو ظاہر کرتی ہیں،رسم عثمانی ان سے خالی تھا۔چنانچہ جب قرآنی کلمات کو مصاحف میں نقطوں اور حرکات کے بغیر لکھا گیا تو ان میں متعددقراءات اور ایک لفظ کو مختلف