کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 19
جو کلمات ِقرآنیہ کا اصل مصدر ہے۔[1] اور قدیم مفسرین کی ایک معتد بہ تعداد جن میں امام قتادہ متوفی (117ھ،735م) سرفہرست ہیں،نے سوچا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا یا ان میں سے گناہ گاروں کو قتل کرنا چونکہ سنگدلی ہے اور یہ سزا ان کی غلطی سے مناسبت نہیں رکھتی تو انہوں نے خاموش حروف کے رسم کو بدل کر اوپر کے دو نقطوں کو نیچے منتقل کر کے ’’فأقیلوا‘‘ پڑھ دیا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ’’جس گناہ کا تم نے ارتکاب کیا ہے،اس پرندامت کے ساتھ معافی مانگو۔‘‘یہ مثال فی الواقع اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ اختلافِ قراءات کے اسباب میں سے ایک سبب معروضی حالات بھی تھے۔اس کے برعکس سابقہ مثالوں میں اختلافِ قراءات کا باعث وہ تکنیکی اور فنی وجوہات ہیں،جن کا تعلق رسمِ مصحف سے ہے۔‘‘
گولڈ زیہر نے مزید لکھا ہے کہ
’’ معلوم یہ ہو تا ہے کہ سورۃ الفتح کی آیت نمبر 8 اور 9 میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ﴿اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ وَ تُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الفتح:9-8)اس میں راء کے ساتھ ’’ تُعَزِّرُوْہُ‘‘ ہے۔ جس کا معنی ہے ’’تم اس کی مدد کرو۔‘‘ اس کو بعض نے زاء کے ساتھ ’’تُعَزِّزُوْہُ‘‘ پڑھا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ ’’تم اس کی تعظیم کرو۔‘‘ کچھ بعید نہیں کہ متن میں اس تبدیلی کی وجہ یہ اندیشہ ہو کہ کہیں قرآن کی اس آیت سے یہ مفہوم نہ اخذ کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں سے اعانت کاطلب گار ہے۔ ہاں البتہ قرآن کی سورۃ الحج،آیت:40،سورۃ محمد،
[1] یہ قرآن کریم پر بہتان ہے۔تورات،انجیل،قرآن اور تمام الہامی کتابوں کا اصل سرچشمہ اور مصدر درحقیت لوح محفوظ ہے اور خود مستشرق موصوف نے کتاب کے شروع میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے.