کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 18
تحریکِ قراءات کے وجود کا باعث بنا۔‘‘ اس سلسلے میں گولڈ زیہر نے درج ذیل پانچ مختلف قراءات بطور مثال پیش کی ہیں،جو اس کے خیال میں مصاحف کے نقطوں سے خالی ہونے کی وجہ سے وجود میں آئیں: (۱) ﴿وَ نَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَہُمْ بِسِیْمٰیہُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَ مَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ (الأعراف:48) اس آیت میں ’’تَسْتَکْبِرُوْنَ‘‘ کو بعض نے باء کی بجائے ثائے مثلثہ کے ساتھ ’’تَسْتَکْثِرُوْنَ‘‘ پڑھا ہے۔ (۲) ﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ﴾ (الأعراف:57) اس میں لفظ ’’بُشْرًا‘‘ کو باء کی بجائے نون کے ساتھ ’’نُشْرًا‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔ (۳) ﴿وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ﴾ (التوبۃ:114) بعض قراء نے اس میں لفظ ’’اِیَّاہُ‘‘ کو ہمزہ کے کسرہ (زیر) اور یاء مشددہ کے بجائے ہمزہ کے فتح(زبر) اورباء کے ساتھ ’’أَبَاہُ‘‘ پڑھا ہے۔ (۴) ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (النساء:94) ثقہ قراء کی ایک جماعت نے اس میں ’’فَتَبَیَّنُوْا‘‘ کو باء کی بجائے ثاء کے ساتھ ’’فَتَثَبَّتُوْا‘‘ پڑھا ہے۔ اس کے بعد گولڈ زیہر لکھتا ہے کہ درج بالا قراءات کے مابین اس قسم کے اختلافات سے عام مفہوم اور فقہی مسائل میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ (۵) ﴿فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ﴾ (البقرۃ:54) گولڈ زیہر کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’مذکورہ آیت درحقیقت سفر الخروج فصل 32،فصلۃ 27کے بالکل مطابق ہے