کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 17
ان کے منسوخ ہونے سے لاعلم بعض حضرات ان قراءات کو بعد میں بھی پڑھتے رہے۔ نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ان مصاحف کو نقطوں اور حرکات سے خالی رسم الخط پر تحریر کرنے کا مقصد یہی تو تھاکہ عرضہ اخیرہ کے وقت موجود تمام وجوہ ِقراءات پر امت کو جمع کیا جا سکے اور تمام قراءات شاذہ[1] اور منسوخہ کو ہمیشہ کے لیے قرآن سے الگ کردیا جائے۔ اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے جو مصاحف مرتب کئیگئے تھے،ان کے مابین قراءات قرآنیہ کی مناسبت سے متعدد کلمات میں اختلاف تھا،[2] جیساکہ قراءات اور رسم القرآن کے موضوع پر مبنی کتب سے واضح ہے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصد امت کو ایک ہی نصِ قرآنی (قراء ۃ) پر جمع کرنا ہوتا تو تمام مصاحف کو ایک ہی شکل میں لکھواتے اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا اختلاف نہ ہوتا۔ چنانچہ مصاحف عثمانیہ کے درمیان بعض کلمات کے رسم میں اختلاف اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیش نظر امت کو ایک نصِ قرآنی پر نہیں،بلکہ ان قراءات پر جمع کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بذریعہ تواتر ثابت تھیں۔ گولڈزیہر صفحہ 8 پر لکھتے ہیں: ’’ان اختلافات (قراءات)کے ایک بڑے حصہ کے وجود میں آنے کا سبب عربی رسم الخط کی خاصیت ہے۔اس رسم الخط کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک ہی کلمہ کے ایک ہی ڈھانچہ کو اوپر،نیچے موجود نقطوں کے لحاظ سے مختلف طرح سے پڑھاجا سکتا ہے۔ نیز عربی رسم الخط کے نقطوں اور حرکات(زبر،زیر،پیش) سے خالی ہونے کی وجہ سے ایک ہی کلمہ کو اعراب کی مناسبت سے مختلف انداز سے پڑھنا ممکن ہے۔تو رسمِ مصحف چونکہ نقطوں اور حرکات سے خالی تھا،جو بعد ازاں
[1] اصطلاح میں قراء ات شاذۃ سے مراد،وہ قراء ات ہیں جن کا رسم مصحف ِامام کے رسم سے مختلف ہو۔وہ بطریق آحاد مروی ہوں،خواہ وہ سنداً صحیح ہوں یا ضعیف،لغت عربی کے مطابق ہوں یا مخالف. [2] ایسی قراء ات جنہیں ایک رسم کے تحت لکھنا ممکن نہیں تھا،انہیں تمام مصاحف میں تقسیم کر دیا گیا تھا.