کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 16
تابعین کی ایک بڑی تعداد نے حاصل کیا۔پھر عالم اسلام کے ہر علاقہ،ہر دور اور ہر نسل میں ایک جم غفیر کو لیے ہوئے یہ سلسلہ آخر کار ہم تک پہنچا۔اس قدرشاندار اور کڑے نظام کی موجودگی میں کیا نصِ قرآنی میں کسی ادنیٰ درجہ کے تغیراور اضطراب کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟ گولڈ زیہر اپنی کتاب کے صفحہ 5 پر لکھتاہے: ’’اسلامی تاریخ کے قدیم ادوار میں نص ِّ قرآنی کی وحدت (اکائی)کے عقیدہ کی طرف رجحان کو بہت ہی کم پزیرائی حاصل ہو ئی ہے۔‘‘ گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ میں سے ایک گروہ نص قرآنی کی اکائی کا عقیدہ رکھتا ہے،لیکن یہ عقیدہ اپنے لیے کوئی بڑی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ گولڈزیہر کے نقطہ نظر کا جائزہ: گولڈ زیہر کی یہ سخن سازی اپنی پشت پر کوئی دلیل نہیں رکھتی،بلکہ ایسے ٹھوس حقائق موجود ہیں جو اس تخیل کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ نص قرآنی کا یہ نظریہ محض گولڈ زیہر کی ذہنی اختراع ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ کسی مسلمان کے دل میں اس نظریہ کا خیال بھی آیا ہو۔ اگر اس کا کوئی وجود ہوتا تو تاریخ کبھی اس کو نظر انداز نہ کرتی،اور ہم تک ضرور پہنچتا۔ باقی رہا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام کہ انہوں نے مصاحف کی کتابت کروائی اور انہیں بلاد اسلامیہ کی طرف روانہ کیا اور تمام مسلمانوں کو ان کی پاپندی پرآمادہ کیا،تو اس کا باعث قطعاً یہ نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو ایک ہی نصِّ قرآنی پر جمع کرنا چاہتے تھے،بلکہ اس کا محرک عالم اسلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قراءات متواترہ پر جمع کرنا اور ان تمام قراءات کو قرآن سے الگ کرنا تھا جو امت کی آسانی کے پیش نظرعبوری دور کے لیے نازل ہوئی تھیں،پھر عرضۂ اخیرہ[1] میں منسوخ کر دی گئیں،لیکن
[1] جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان کے مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم 2کو قرآن سناتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل کو سناتے۔ قرآن کریم کے دور کا یہ سلسلہ ابتدائے وحی سے متواتر ۲۳ سال تک جاری رہا۔ اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا یہ دور کیا،جسے عرضہ اخیرہ کہا جاتا ہے.