کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 15
﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾(النساء:82)
’’اگر قرآن کریم اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے(نازل) ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے‘‘
ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مشکل القرآن‘‘ میں لکھا ہے:
’’اختلاف کی دو قسمیں ہیں:(1).اختلاف تغایر اور۔(2). اختلاف تضاد۔ اختلاف تضاد تو ممکن نہیں ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ کتاب اللہ میں اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ہاں البتہ اختلاف تغایر ممکن ہے۔‘‘
اس کے بعد ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے قرآن سے اس قسم کے اختلاف کی متعدد مثالیں ذکر کی ہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ دونوں میں ہر معنی اپنی جگہ پر بالکل درست،ہر قراء ۃ ایک مستقل آیت کے قائم مقام اور قراءات کا یہ اختلاف بلاشبہ فنِّ ایجاز کاایک شاہکارہے جسے قرآن نے اپنے احکام اور تعلیمات کے پیرایہ بیان میں اختیار کیا ہے۔
الغرض قراءات میں اختلاف کی نوعیت تنوع اور تغایر کی ہے،تعارض اور تناقض کی قطعاً نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عقل مند اور ذی ہوش انسان ایک ہی موقعہ پر باہم متعارض گفتگو نہیں کرتا تو پھر اللہ تعالیٰ جو پوری انسانیت کا رب ہے،اس کے کلام میں تناقض کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ان واضح حقائق کے بعد بہر حال یہ ماننا پڑتا ہے کہ تاریخ انسانی میں قرآن کریم ہی وہ واحد الہامی کتا ب ہے جس کے متن کے تعین میں کسی الجھن اور نص میں کسی اضطراب کا تصور بھی محال ہے۔
علاوہ ازیں نصِ ِّقرآنی اور قراءات کے سلسلے میں جن روایات پر اعتمادکیا گیا ہے،وہ بذریعہ تواتر ہم تک پہنچی ہیں اورہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان قراءات کی نسبت قطعی ذریعہ سے ثابت ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیرتعداد نے ان قراءات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہہ حاصل کیا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین کے ایک بڑے جمّ غفیر نے ان قراءات کو براہِ راست سنا اوران تابعین سے تبع