کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 149
آہنگی پیدا کرنے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئیں۔اس کی ایک مثال سورۃ الحجرات کی آیت 9:﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا﴾ ہے۔یہاں ’’اقْتَتَلُوا‘‘ میں جمع مذکر کی ضمیر تثنیہ مونث ’’طائفتان‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ بعض قراء نے یہ چاہا کہ اسے نحوی قواعد کے کے مطابق ہونا چاہیے،چنانچہ ان میں سے ایک قاری ابن ابی عبلہ نے اسے ’’اقْتَتَلتا‘‘ پڑھا اور عبید بن عمیر نے اسے ’’اقْتَتَلا‘‘ پڑھا۔‘‘ …انتہیٰ اس اقتباس میں گولڈ زیہر کا یہ جملہ کہ’’بعض ایسی قراءات کااعتراف بھی سامنے آیا ہے جو باریک نحوی قواعد اور ان کے مخالف بعض الفاظ و جملوں کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئیں۔‘‘ اور پھر سورۃ الحجرات کی آیت کو بطور مثال پیش کرنا،قابل ملاحظہ ہے۔یہاں گولڈ زیہر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ مذکورہ آیتِ کریمہ نحوی قواعد کے خلاف ہے،کیونکہ یہاں ’’اقْتَتَلُوا‘‘ میں جمع مذکر کی ضمیر،تثنیہ مونث ’’طائفتان‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ حالانکہ عربی گرائمر کی رو سے ’’اقْتَتَلُوا‘‘ کی بجائے ’’اقْتَتَلتا‘‘ یا ’’اقْتَتَلا‘‘ ہونا چاہیے تھا،تاکہ ثتنیہ کی طرف تثنیہ کی ضمیر ہی لوٹائی جا سکے۔ لہٰذا ضروری ہو گیا کہ کوئی ایسی قراء ت اختراع کی جائے جس سے عربی گرائمر اور قرآنی الفاظ کے درمیان ہم آہنگی کی صورت پیدا ہو جائے۔ لہٰذا ابن ابی عبلہ نے ’’طائفتان‘‘ کے لفظ کی مناسبت سے ’’اقْتَتَلتا‘‘ کی قراء ت وضع کی اور زید بن علی اور عبید بن عمیر نے ’’طائفتان‘‘ کے مفہوم کی مناسبت سے،یعنی طائفۃ کو فریق کے معنی میں لیتے ہوئے ’’اقْتَتَلا‘‘ کی قراء ت اختراع کی۔یہ گولڈ زیہر کی گفتگو کا خلاصہ تھا،اب اس پر ہمارا تجزیہ ملاحظہ ہو: ہم بارہا یہ حقیقت واضح کر چکے ہیں کہ نحو کے قواعد قراءات کے تابع ہیں،قراءات قرآنیہ قواعدِ نحویہ کے تابع نہیں ہیں،کیونکہ قرآن کریم اپنی تمام تر قراءات و روایات سمیت فصیح ترین عربی زبان میں نازل ہوا ہے جو اس وقت جزیرہ عرب کی عام زبان تھی۔اور قواعد نحویہ کا ماخذ یہی کلامِ عرب ہے جو نظم و نثر پر مشتمل ہے یا پھر ان کا اہم ترین ماخذ قرآن کریم