کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 14
الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ﴾ (الحدید:18) یہاں دونوں کلمات میں ایک قراء ت صاد کی تشدید کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کلمات اصل میں ’’المتصدقین‘‘ اور ’’المتصدقات‘‘ تھے۔ پھر تاء کو صاد سے بدلا اور صاد کو صاد میں مدغم (Diphth g) کر دیا گیا۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں،جو اپنی دولت میں سے فرض صدقہ (زکوۃ) یا مستحب صدقہ نکالتے ہیں۔ اور دوسری قراء ت ان میں صاد کی تخفیف (جزم)کے ساتھ ہے اور مراد وہ لوگ ہیں ’’جو دین کے پابند اور ان کے دل اسلام کی اطاعت اوراس کے ا حکام کی بجاآوری کے جذبہ سے لبریز ہوں۔‘‘دونوں قراءات کا مفہوم بظاہر مختلف ہے،لیکن در حقیقت وہ ایک مومن انسان کی سیرت کے گونا گوں پہلوؤں کو نمایاں کررہی ہیں۔ ایک اور مثال ملاحظہ ہو کہ﴿فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا﴾ (البقرۃ:36) میں ایک قراء ت،زاء کے بعد حذفِ الف اور لام کی تشدید کے ساتھ ’’فَاَزَلَّہُمَا‘‘ ہے۔معنی یہ ہے کہ ’’شیطان نے ان دونوں (آدم و حوا) کو غلطی میں ڈال دیا۔‘‘ اور دوسری قراء ت زاء کے بعد الف کے اثبات اور لام کی تخفیف(جزم) کے ساتھ ’’فَاَزَالَہُمَا‘‘ ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ ’’شیطان نے آدم و حوا کو جنت سے دور کر دیا۔‘‘ یہاں مفہوم میں بظاہر تغایر ہے،لیکن حقیقت میں دونوں معنی لازم و ملزوم ہیں،کیونکہ آدم وحوا کا غلطی میں مبتلا ہونا ہی در اصل ان کی جنت سے محرومی کا باعث ہوا تھا۔ گویا لغزش کا ارتکاب سبب ہے اور جنت سے علیحدگی اس کا نتیجہ ہے۔قراءات میں اس قسم کے اختلاف کا مقصددرحقیقت قرآن کریم میں اختصار کے ساتھ جامعیت پیداکرنا تھا کہ ایک ہی آیتِ قرآنی سے دو آیتوں کا کام لیا جائے اور کم ازکم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کاحصول ممکن ہو سکے۔ باقی جہاں تک تعلق ہے کسی لفظ میں دو ایسی قراءات کے وجود کا،جن کا مفہوم باہم متضاد ہو اور ان کا مدعاباہم مختلف ہو،تو قرآن کریم میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے،اور ایسا ہونا قطعاً محال ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: