کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 13
ساکن اور شین کی تخفیف کے ساتھ ’’یَنْشَؤُا‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔ اور جیسے:﴿لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا﴾(یس:10) کو تاء مخاطب اور یائے غائب کے ساتھ دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اور جیسے:﴿وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ﴾ (الذاریات:46) میں لفظ ’’قَوْمَ‘‘ کو میم کی زیر اور زبر کے ساتھ دونوں طرح پڑھا گیاہے۔ معانی اور الفاظ کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک ہی لفظ کو مختلف انداز سے پڑھنا اہل عرب کے دستور کے مطابق ہے،بشرطیکہ گفتگو میں پیش ِنظرمفہوم مجروح نہ ہو۔نیز اس میں ایک ہی حرف کے دائرہ میں محدود نہ ہونے کے سبب سے قاری کے لیے وسعت بھی پیدا ہو جاتی ہے،خاص طور پر اس وقت تو یہ بات انتہائی قرین ِقیاس معلوم ہوتی ہے جب کسی شخص کو اپنی طرف سے قرآن کریم کے کسی لفظ میں تبدیلی کی اورحامل وحی سے سنی ہوئی قراء ت سے انحراف کی اجازت نہ ہو۔ دوسری قسم: دوسری قسم ان قراءات کی ہے کہ دوقراء ا تیں تلفظ کے اختلاف کے ساتھ ساتھ معنی میں بھی مختلف ہیں،لیکن دونوں کے معنی میں کوئی تضاد اور تعارض (C ntadicti n) نہیں ہے بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو مختلف پہلو ہیں،دونوں معنی کے درمیان تطبیق (adjustment) ممکن ہے،مثلاً:﴿وَ انْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا﴾ (البقرۃ:259) اسے زاء کے ساتھ ’’نُنْشِزُہَا‘‘ بھی پڑھا گیا ہے،جس کا معنی ہے:’’ہم ان کو آپس میں ملائیں گے۔‘‘ اور اسے راء کے ساتھ ’’نُنْشِرُہَا‘‘ بھی پڑھا گیا ہے،جس کا معنی ہے:’’ہم انہیں موت کے بعد حساب کے لیے زندہ کریں گے۔‘‘ اس میں دونوں معانی بظاہر مختلف ہیں،لیکن ان کے درمیان کوئی تناقض اور تضاد نہیں ہے،بلکہ دونوں کا معنی ملتا جلتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو دوبارہ اٹھاناچاہے گا تو ان کی ہڈیوں کو باہم ملائے گا اور اس کے بعد انہیں جزاء و سزا کے لیے زندہ کرے گا۔ایک اور مثال دیکھئے کہ﴿اِنَّ