کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 125
حاصل بحث یہ ہے کہ یہ دونوں قراءات متواتر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اساسی اور غیر اساسی یا ا صلی یا فرعی نہیں ہے۔اور یہ دونوں قراءات مفہوم کے اعتبارسے آیات کے سیاق وسباق کے مطابق ہیں۔ (۱۲)۔ بارھویں مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ یوسف کی آیت نمبر81 ہے۔ اس آیت کے ضمن میں گولڈ زیہر لکھتا ہے: ’’اسی طرح یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ قرآنی متن میں قراء کی اصلاح نے یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے کی ساکھ کو نقصان سے بچا لیا۔سورۃ یوسف کی آیت:81 میں ہے کہ یوسف نے اپنے بھائی بنیامین کے سامان سے وہ پیالہ برآمدکر لیا جو انہوں نے خودہی بنیامین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے بطور تدبیر ان کے سامان میں رکھا تھا۔جب یہ واقعہ رونما ہو چکا تو برادران ِیوسف نے اپنے باپ کو واپس جا کر یہ رپورٹ دی:﴿اِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ﴾(81) ’’ابا جان ! آپ کے صاحبزادے نے چوری کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘اس قراء ۃ کی بنیاد پر چونکہ بنیامین کے جرم کا اقرارلازم آتا تھا تو امام کسائی کی قراء ۃ نے اس دھبے کو یوں مٹا دیا:﴿اِنَّ ابْنَکَ سُرِّقَ﴾سین کی پیش اور راء کی زیر اور تشدید کے ساتھ اس قراء ۃ کا معنی یہ ہے کہ آپ کے بیٹے پر چوری کا الزام ہے۔ اس قراء ۃ کو ابو الخطاب الجراح نے رمضان کی ایک رات قیام میں پڑھا۔ خلیفہ مستنصر بھی ان کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا تھا۔ خلیفہ جو دینی مسائل کو بڑی اہمیت دیتا تھا،نے نماز کے بعد اس قراء ۃ کو بڑا پسند کیا اور کہا:یہ قراء ۃ اولادِ انبیاء کو کذب بیانی کے داغ [1] سے مبرا قرار دیتی ہے۔‘‘
[1] اس میں کوئی جھوٹ کی بات نہیں ہے،انہوں نے بنیامین کے سامان سے پیالہ برآمد ہوتے دیکھا تھا،لہٰذا اس کی صراحت کر دی،اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا،بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں،باقی غیب اللہ بہتر جانتا ہے۔کوئی بھی ذی عقل اسے کذب بیانی سے تعبیر نہیں کرسکتا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خود ساختہ ہے۔لیکن گولڈ زیہر کو تو اپنے ذہن ساز مفروضہ کے لئے بس سہارا چاہیے.